کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 778
امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کے لیے مصر میں رہائش گاہ: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا کہ: یہاں (مصر میں) ہم نے جامع مسجد کے پاس آپ کے لیے ایک رہائش گاہ بنانے کا خاکہ تیار کیا ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جوابی خط میں لکھا کہ: میں حجاز میں رہتا ہوں اور مصر میں میرے لیے رہائش گاہ! پھر آپ نے ان کو حکم دیا کہ زمین کے اس حصہ کو لوگوں کے لیے بازار میں تبدیل کردو۔[1] یہ واقعہ امیرالمومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے کمال تقویٰ اور دنیوی زندگی کی ظاہری چمک دمک سے بیزاری کی واضح دلیل ہے۔ جب بڑے بزرگ، قائدین اور باحیثیت لوگ دنیا کے پلید کیچڑ اور فانی مال ومتاع سے خود کو دور رکھیں گے تو جو لوگ ان سے کم تر ہیں، یا ان کے ماتحت ہیں وہ ان چیزوں سے بدرجہ اولیٰ احتراز کریں گے۔[2] کیا اسکندریہ کا کتب خانہ مسلمانوں نے نذر آتش کیا؟ ڈاکٹر عبدالرحیم محمد عبدالحمید کہتے ہیں کہ تلاش بسیار کے باوجود مجھے کوئی ایسی صریح عبارت نہیں ملی اور نہ کسی عبارت کا اشارہ ملا جو بتائے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کا کتب خانہ نذر آتش کیا تھا۔ اس سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ ابن القفطی کی وہ عبارت ملتی ہے جسے ابن عبری متوفی ۶۸۵ھ موافق ۱۲۸۶ء اس طرح نقل کرتا ہے: ’’مسلمانوں کے درمیان یحییٰ نحوی کی بہت شہرت تھی، وہ اسکندریہ میں رہتا تھا اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں اسکندریہ فتح ہونے تک باحیات تھا۔ اسکندریہ فتح ہو جانے کے بعد وہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے اس کے علمی مقام و مرتبہ کے لحاظ سے اس کو عزت واحترام سے نوازا اور اس سے ایسے فلسفیانہ الفاظ سنے جن سے عربوں کے کان نامانوس تھے۔‘‘ ابن القفطی متوفی ۶۴۶ھ موافق ۱۲۶۷ء واقعہ کو مکمل کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: میرے پاس تمہاری آمد کا کیا مقصد ہے؟ اس نے کہا: شاہی خزانوں میں حکمت و فلسفہ کی جو کتابیں ہیں مجھے دے دیجیے۔ اس وقت کتب خانہ میں فلسفہ کی تقریباً چون ہزار ایک سو بیس (۵۴۱۲۰) کتابیں تھیں۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے یحییٰ کے مطالبہ کو بہت اہم سمجھا اور کہا: امیرالمومنین کی اجازت مل جانے کے بعد ہی میں اس کے متعلق کچھ کہہ سکتا ہوں۔ پھر آپ نے عمر رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا اور یحییٰ کی بات سے آپ کو آگاہ کیا۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے جواباً خط لکھا کہ جن کتابوں کے بارے میں تم نے لکھا ہے اگر ان میں ایسی کتابیں ہوں جو قرآنی تعلیمات کے موافق ہوں تو قرآن ان کے بدلے کافی ہے اور اگر ایسی کتابیں ہوں جو قرآنی تعلیمات کے خلاف ہوں تو ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے، انہیں ختم کر دو۔ چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے انہیں اسکندریہ کے حمامات
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۲/۳۵۱۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۲/۳۵۱۔ [3] فتوح مصر، ص:۵۷۔ [4] التاریخ الإسلامی: ۱۲/ ۳۳۰۔