کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 775
گئی۔ پھر تیزی سے چلتی ہوئی باہر نکلی، میں اس کی پنڈلیوں سے رگڑ کی آواز سن رہا تھا۔ وہ میرے قریب آئی اور کہا: اٹھو، چلو تمہیں امیرالمومنین بلا رہے ہیں، میں اس کے پیچھے پیچھے چلا، جب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ ایک ہاتھ سے اپنی چادر لے رہے ہیں اور دوسرے سے ازار باندھ رہے ہیں۔ آپ نے پوچھا: کیا خبر ہے؟ میں نے کہا: اے امیرالمومنین! اچھی خبر ہے۔ اللہ نے اسکندریہ پر فتح عطا کی ہے۔ آپ مجھے لے کر مسجد پہنچے اور مؤذن سے کہا: لوگوں کو جمع کرنے کے لیے ’’ الصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ‘‘ کی ندا لگاؤ۔ پھر لوگ اکٹھے ہوئے۔ آپ نے مجھ سے کہا: اٹھو اور لوگوں کو خبر دو، میں کھڑا ہوا، لوگوں کو فتح کی خوشخبری دی، پھر آپ نے نماز پڑھی اور اپنے گھر میں داخل ہوئے، قبلہ رخ ہو کر کچھ دیر دعائیں کیں۔ پھر اطمینان سے بیٹھے اور کہا: اے لونڈی کیا کھانے کے لیے کچھ ہے؟ وہ روٹی اور روغن لائی۔ آپ نے مجھ سے کہا: کھاؤ، میں نے شرما شرما کر کھایا۔ آپ نے پھر کہا: کھاؤ، کھاؤ، مسافر کو کھانا محبوب ہوتا ہے۔ اگر میں کھانے کی ضرورت محسوس کرتا تو تمہارے ساتھ کھاتا۔ یہ سن کر میں نے شرم سے سر جھکا لیا۔ پھر آپ نے پوچھا: اے معاویہ! جب تم مسجد پہنچے تھے تو کیا کہا تھا؟ میں نے کہا: میں نے کہا تھا کہ شاید امیرالمومنین قیلولہ کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا تم نے کتنی غلط بات کہی یا غلط گمان کیا۔ اگر میں دن میں سویا تو اپنی رعایا کو ضائع کیا اور اگر رات میں سویا تو اپنی ذات کو ضائع کیا۔ اے معاویہ! ان دونوں باتوں کے ہوتے ہوئے نیند کہاں آسکتی ہے؟[1] اس واقعہ سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ شروع اسلام میں مسجدیں اہم ترین وسائل اعلام وذرائع ابلاغ کا کردار ادا کرتی تھیں، لوگ ’’اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌ‘‘ کی پکار پر لبیک کہتے تھے، اس کلمہ کے اعلان کا مطلب ہی یہ ہوتا تھا کہ کوئی اہم واقعہ پیش آیا ہے جس کی اطلاع دینی تمام مسلمانوں کو ضروری ہے، چنانچہ اس اعلان کے مطابق لوگ مسجد میں جمع ہوتے اور ان کے سامنے عسکری سیاسی اور سماجی غرض کہ ہر قسم کے بیانات رکھے جاتے۔ اس طرح یہ واقعہ عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کی ایک خاص صفت بتاتا ہے۔ آپ خلیفۃ المسلمین کے منصب پر فائز ہوتے ہوئے معاویہ بن خدیج رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں: اگر میں دن میں سویا تو اپنی رعایا کو ضائع کر دیا اور اگر رات کو سویا تو اپنی ذات کو ضائع کر دیا۔ اے معاویہ! ان دونوں باتوں کے ہوتے ہوئے مجھے نیند کیسے آسکتی ہے؟ واقعتا آپ کی یہ بات آپ کی اپنی ذات اور دوسروں کے حقوق کی مکمل رعایت نیز ہمہ وقت ان کے لیے بیدار رہنے کی ترجمانی کرتی ہے اور جب مسلمان ان تمام حقوق کی مکمل رعایت کر تا ہے تو وہی اللہ کے نزدیک پرہیزگاروں اور احسان کرنے والوں میں سے ہو جاتا ہے۔[2]
[1] الفن العکسری الإسلامی، ص:۳۲۰۔ [2] الفن العسکری الإسلامی، ص:۳۲۰۔ [3] الفن العسکری الإسلامی، ص:۳۲۰۔