کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 773
کیا تھا۔ اس حکمت عملی کا مقصد یہ تھا کہ فوج کی کثرت اور فصیلوں کی حفاظت دیکھ کر مسلمان خوفزدہ ہو جائیں۔ لیکن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس کے پاس یہ کہہ کر قاصد بھیجا کہ تم نے جو کچھ (حفاظتی تدبیر) کیا ہے ہمیں معلوم ہے، ہم اپنی کثرت کی بنا پر اپنے دشمنوں پر غالب نہیں ہوتے۔ ہم تمہارے بادشاہ سے اس سے پہلے پنجہ آزمائی کر چکے ہیں اور تمہیں اس کا انجام معلوم ہے۔ مقوقس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ لوگ بالکل سچ کہہ رہے ہیں، ہمارے بادشاہ کو اسی کے زیر اقتدار شہر سے نکال کر قسطنطنیہ بھگا دیا۔ لہٰذا ہمیں تو بدرجہ اولیٰ ان کی اطاعت قبول کر لینی چاہیے۔[1] عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پیغام سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ان فوجی سپہ سالاروں میں سے ایک تھے جو اپنے دشمن کو دہشت زدہ کرنے اور اس کی جنگی روح کو سرد کرنے کے لیے نفسیاتی جنگ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے تھے اور صرف ایک مقصد کی کامیابی کے لیے جنگ میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی ذات پر، اس کے بعد عقل اور تلوار پر اعتماد کرتے تھے، وہ بنیادی مقصد یہی ہوتا تھا کہ جنگ کے اختتام پر فتح ونصرت ہمارے حصہ میں آئے۔[2] ۲: کمین گاہوں سے اچانک حملہ کرنا: معرکہ عین شمس میں عمرو رضی اللہ عنہ نے کمین گاہوں سے اچانک حملہ کرنے کا اسلوب اپنایا، آپ نے ان کمین گاہوں کو مضبوط انداز میں تیار کیا تھا تاکہ مکمل کامیابی کا راستہ ہموار ہو سکے، چنانچہ کمین گاہوں میں چھپنے والی فوج کو رات میں اپنی اپنی مخصوص جگہ پر چلے جانے کا حکم دیا، گھات لگانے کے لیے نہایت موزوں مقامات کو منتخب کیا تھا اور وہاں سے نکلنے کا ایسا موقع متعین کیا تھا کہ جب دشمن اپنے محاذ پر مقابلہ کرنے میں الجھا ہوا ہوگا۔ پس ایسا ہی ہوا اور فوج نے کمین گاہوں سے نکل کر دشمن کے میمنہ ومیسرہ پر اچانک دھاوا بول دیا، اس طرح مناسب وقت کا انتخاب اور دشمن سے ٹکراؤ بالکل صحیح نشانے پر لگا۔ چنانچہ کمین گاہوں سے حملہ آور ہونے کی یہ جنگی ترکیب کامیابی اور حفاظت کے اعتبار سے عمرو رضی اللہ عنہ کی کامیاب ترین کارروائیوں میں شمار کی جاتی ہے۔[3] ۳: محاصرہ کے دوران اچانک حملہ کرنا: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے قلعہ بابلیون کے محاصرہ کے دوران اچانک حملہ کرنے کا اسلوب نہایت ہوشیاری سے اپنایا۔ چنانچہ جس وقت رومی فوج بابلیون کے مضبوط قلعہ میں مسلمانوں سے بے خوف ہو کر اس لیے مطمئن بیٹھے تھے کہ قلعوں و فصیلوں کی مضبوطی، سامان رسد اور ذخائر اسلحہ کی کثرت، قلعہ کے دروازوں پر کانٹے دار تاروں کی باڑ، فصیل سے متصل گہری خندق جس کا پانی دریائے نیل کے اترنے کی وجہ سے خشک ہو چکا تھا۔ یہ ساری چیزیں مسلمانوں کو آگے نہ بڑھنے دیں گی، لیکن اچانک رات کی سخت تاریکی میں زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ اور ان کے
[1] الأنصار فی العصر الراشدی، ص:۲۱۱۔