کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 770
دیتے رہیں گے۔ تم اسے قبول کرو اور قہر آگیں طاقت مسلط ہونے سے پہلے یہاں سے چلے جاؤ۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: اے فلاں! خود کو اور ساتھیوں کو دھوکے میں نہ ڈالو۔ رومی افواج کی کثرت اور ان کی مسلح پیش قدمی کی جو تم ہمیں دھمکی دے رہے ہو اور کہتے ہو کہ ہم ان کا مقابلہ نہ کر پائیں گے تو سن لو! میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ چیز ہمیں خوف نہیں دلا سکتی اور نہ ہمارے حوصلے پست کر سکتی ہے۔ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو جان لو کہ اللہ کی قسم یہ چیز ان سے لڑنے میں ہمیں اور قوت دے گی اور ہمارے حوصلے بلند ہو جائیں گے۔ اس لیے کہ جب ہم اپنے رب کے پاس حاضر ہوں گے تو اپنے فرض سے بری الذمہ ہوں گے اور اگر ہم سب قتل کر دیے گئے تو اس کی خوشنودی اور جنت ہمارے نصیب میں آئے گی اور اس سے بڑھ کر نہ کوئی چیز ہمارے نزدیک محبوب ہے اور نہ آنکھوں کو ٹھنڈک دینے والی ہے۔ اس وقت ہم تمہاری وجہ سے دو میں سے ایک بھلائی ضرور پائیں گے اگر ہم تم پر فتح یاب ہوئے تو دنیا میں تم سے بہت زیادہ مال غنیمت ملے گا یا تم ہم پر فتح یاب ہوگے اور ہمیں آخرت کی بھلائی ملے گی۔ ہماری کوشش کے نتیجے میں دونوں میں سے آخر الذکر ہی ہمیں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب عزیز میں ہم سے فرمایا ہے: ﴿كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (249)(البقرۃ: ۲۴۹) ’’ کتنی ہی تھوڑی جماعتیں زیادہ جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غالب آگئیں اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘ ہم میں سے ہر ایک مسلمان صبح وشام اپنے رب سے شہادت کے لیے دعا کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اپنے شہر اور اہل وعیال کی طرف لوٹ کر نہ جائے۔ کوئی اپنے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا۔ اپنے اہل وعیال کو اللہ کی حفاظت میں دے کر آیا ہے۔ ہماری فکر آگے کی ہوتی ہے۔ اور تمہارا یہ کہنا کہ معاش کی تنگی کے ساتھ ہم دوسری ضروریات میں الجھے ہوئے ہیں، تو جان لو کہ ہم بہت خوشحال ہیں، اگر پوری دنیا کی دولت ہمارے قبضہ میں آ جائے پھر بھی ہم موجودہ اسباب زندگی سے زیادہ کے خواہش مند نہ ہوں گے، تم کیا چاہتے ہو، اچھی طرح غور کر لو اور پھر ہمیں بتاؤ، ہمارے اور تمہارے درمیان تین چیزوں کے علاوہ کسی اور بات پر فیصلہ نہ ہوگا، ان میں سے کوئی ایک اختیار کر لو اور ہم سے باطل کے لیے امیدیں مت لگاؤ ہمارے امیر نے ہمیں یہی کہہ کر بھیجا ہے اور امیرالمومنین نے ان سے یہی کہا ہے اور اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ہمیں حکم دیا، اسلام قبول کر لو کیونکہ اللہ کو اس کے علاوہ کوئی دین منظور نہیں، یہی اس کے انبیاء، رسولوں اور فرشتوں کا دین ہے۔ اس نے ہمیں حکم دیا کہ اس کی مخالفت اور دشمنی کرنے والوں سے ہم اس وقت تک لڑتے رہیں جب تک کہ وہ اسے قبول نہ کر لیں۔ اگر کوئی اسے قبول کر لیتا ہے تو اسے اور ہمیں یکساں حقوق