کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 769
سے زیادہ ان سے خوفزدہ ہو گے۔ میں تو ایسے وقت میں ذمہ دار بن کر آیا ہوں کہ اب میری جوانی ڈھل رہی ہے۔ اس کے باوجود اللہ کا فضل ہے کہ اگر ایک سو (۱۰۰) دشمن میرے مقابلہ میں آجائیں تو میں ڈرنے والا نہیں ہوں اور اسی طرح میرے تمام ساتھی ہیں۔ ہمارے اندر یہ حوصلہ وہمت اس لیے ہے کہ ہماری خواہش اور ہمارا مقصد صرف اللہ کے راستے میں جہاد کرنا اور اسی کی رضا جوئی ہے۔ اپنے دشمنوں اور اعدائے اسلام سے ہماری لڑائی کا مقصد دنیا طلبی اور زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنا نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں کہ اللہ نے دنیا ہمارے لیے بالکل حرام کر دی ہے، بلکہ غنیمت میں ملنے والا مال ہمارے لیے حلال ہے۔ ہم میں سے کسی کو یہ پروا نہیں ہوتی کہ کس کے پاس سونے کا انبار ہے اور کس کے پاس درہم کا ایک سکہ۔ اس لیے کہ ہم دنیوی زندگی کا ماحصل یہ سمجھتے ہیں کہ چند لقمے کھانا ملے جس سے بھوک مٹائی جا سکے اور چادر ہو جسے اوڑھا جا سکے، اگر کسی کو یہی میسر ہے تو بس اس کے لیے یہی کافی ہوتا ہے اور اگر کسی کے پاس سونے کا انبار ہوتا ہے تو وہ سب کچھ اللہ کے راستے میں لٹا کر صرف اسی مختصر زندگی پر اکتفا کرتا ہے۔ اس لیے کہ دنیا کی نعمتیں دائمی نہیں ہیں، یہاں کی خوش حالی حقیقی نہیں ہے۔ حقیقی نعمت اور خوش حالی تو آخرت کی ہے، ہمارے رب اور ہمارے نبی نے ہمیں اس بات کا حکم دیا ہے اور ہم سے وعدہ لیا ہے کہ دنیا کی دولت کے ہم اتنے طلب گار بنیں جس سے ہماری بھوک مٹ جائے، جسم کی سترپوشی ہو جائے۔ ساری کوششوں اور تمام تر مصروفیات کا خلاصہ اللہ کی خوشنودی کی تلاش اور اس کے دشمنوں سے جہاد ہو۔ مقوقس نے یہ سن کر اپنے اردگرد بیٹھنے والوں سے کہا: کیا اس آدمی کی طرح تم نے کبھی کسی کی بات سنی؟ میں تو اس کی شکل دیکھ کر ہیبت میں پڑ گیا اور سب سے زیادہ اس کی بات خوفزدہ کر دینے والی ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ اللہ نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو دنیا تباہ کرنے کے لیے بھیجا ہے اور یہ لوگ جلد ہی پوری دنیا پر قابض ہو جائیں گے۔ پھر عبادہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوا اور کہا: اے فلاں! تم نے اپنے اور اپنے ساتھیوں کے بارے میں جوکچھ کہا میں نے سن لیا۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہاری کامیابی کا راز وہی ہے جو تم نے بتایا اور اپنی مفتوحہ اقوام پر تمہیں غلبہ اسی وجہ سے ملا ہے کہ دنیا انہیں زیادہ پیاری تھی اور وہ اس کے لیے زیادہ کوشاں تھے۔ تم سے لڑنے کے لیے رومیوں کی بے شمار افواج ہمارے پاس آرہی ہیں جو اپنی طاقت اور قہرسامانی کے لیے مشہور ہیں، انہیں قطعاً پروا نہیں ہوتی کہ کس سے مقابلہ اور کس سے لڑائی ہونی ہے۔ کسی میں اتنی ہمت نہیں کہ ان کے مقابلہ پر آسکے۔ ہمیں معلوم ہے کہ تم اپنی کمزوری اور قلت تعداد کی وجہ سے ان کے سامنے نہ ٹھہر سکو گے، تمہیں یہاں پڑے ہوئے کئی مہینے ہوگئے ہیں اور معاش کی تنگی کے ساتھ ساتھ دوسری ضروریات نے بھی تم کو پریشان کر رکھا ہے، ہم تمہاری کمزوری، قلت تعداد اور بے سروسامانی کی وجہ سے تم پر ترس کھاتے ہیں اور تم سے اس شرط پر مصالحت کر لینے میں خوشی محسوس کرتے ہیں کہ سپاہیوں کو دو دو دینار اور تمہارے امیر کو سو (۱۰۰) دینار اور خلیفہ کے لیے ایک ہزار دینار