کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 768
ایک ایسی قوم دیکھی ہے جس کا ہر فرد زندگی سے زیادہ موت اور غرور سے زیادہ خاکساری کو پسند کرتا ہے۔ ان میں کوئی ایسا نہیں جو دنیا سے کوئی دلچسپی یا غرض رکھتا ہو، وہ زمین پر بیٹھتے ہیں، گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کھاتے ہیں، ان کا امیر گویا انہی میں سے ایک ہے۔ ان میں شریف اور کمتر، آقا اور غلام کی کوئی تمیز نہیں۔ جب نماز کا وقت ہوتا ہے تو کوئی پیچھے نہیں رہتا۔ سب وضو کرتے ہیں اور خشوع وخضوع سے نماز پڑھتے ہیں۔ یہ سن کر مقوقس نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کی قسم کھائی جاتی ہے، یہ لوگ چاہیں تو پہاڑوں کو بھی اپنی جگہ سے ہٹا سکتے ہیں، ان سے کوئی نہیں لڑ سکتا۔ اگر آج ہم ان سے صلح نہ کر سکے جب کہ نیل نے انہیں گھیر رکھا ہے تو کل اس خطرے سے نکل جانے کے بعد انہیں صلح پر کیسے آمادہ کر سکیں گے؟ پھر اس نے اپنے قاصدوں کو مسلمانوں کے پاس کہلا بھیجا کہ اپنے نمائندے ہمارے پاس بھیجو، ہم ان سے گفتگو کریں گے، بہت ممکن ہے کوئی ایسا پہلو نکل آئے جس میں ہم تم دونوں کی بھلائی ہو۔ چنانچہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے دس افراد پر مشتمل ایک وفد بھیجا، ان میں ایک عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی تھے، آپ کا قد صرف دس بالشت تھا۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے رومیوں سے گفتگو کرنے کی ذمہ داری انہی کے سپرد کی اور انہیں حکم دیا کہ ان تین شرائط میں سے کسی ایک شرط کے سوا رومیوں کی کوئی تجویز منظور نہ کریں گے۔ اس لیے کہ امیرالمومنین کی طرف سے ہمیں یہی حکم ملا ہے۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا رنگ سیاہ تھا۔جب یہ وفد کشتی پر سوار ہو کر مقوقس کے پاس پہنچا تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بات کرنے کے لیے آگے بڑھے۔ مقوقس، عبادہ رضی اللہ عنہ کا سیاہ رنگ دیکھ کر خوفزدہ ہوگیا اور کہا اس کالے کلوٹے شخص کومیرے پاس سے ہٹاؤ اور کسی اور کو آگے کرو جو مجھ سے بات کرے۔ وفد کے لوگوں نے کہا: یہ کالا کلوٹا شخص ہم سب سے زیادہ عقل مند اور عالم ہے وہی ہمارا سردار، ہم میں سب سے بہتر اور ہمارا رہنما ہے۔ ہم سب اسی کی بات اور رائے مانتے ہیں۔ مسلمانوں کے امیر نے اسے ہمارا ذمہ دار بنا کر بھیجا ہے اور کہا ہے کہ اس کی کسی بات اور رائے کی ہم مخالفت نہ کریں۔ مقوقس نے وفد والوں سے کہا: اس کالے کلوٹے کو اپنا سب سے افضل انسان ماننے کے لیے کیسے تیار ہو، بہتر تو یہ تھا کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ذمہ دار ہوتا؟ انہوں نے کہا: ہرگز نہیں۔ وہ اگرچہ تمہاری نگاہوں میں کالا کلوٹا ہے لیکن ہمارے نزدیک ان کا بہت اونچا مرتبہ ہے۔ وہ ہم سب سے پہلے اسلام لائے اور ہم سب سے زیادہ عقل مند و زیرک ہیں۔ کالا ہونا ہمارے نزدیک کوئی معیوب چیز نہیں ہے۔ پھر مقوقس نے عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا: اے کالے کلوٹے! آگے آؤ اور مجھ سے نرمی سے بات کرو، کیونکہ تمہارا سیاہ رنگ دیکھ کر مجھے ڈر لگتا ہے، اگر تم نے سخت لہجے میں بات کی تو میری گھبراہٹ اور خوف میں اضافہ کر دو گے۔ عبادہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور کہا: میں نے تمہاری بات سن لی، سنو! میرے پیچھے میرے ایک ہزار ساتھی ایسے ہیں جو میری ہی طرح کالے کلوٹے ہیں، بلکہ مجھ سے بھی زیادہ سیاہ اور ہیبت ناک منظر والے، اگر تم ان کو دیکھو گے تو مجھ
[1] عبادۃ بن الصامت صحابی کبیر و فاتح مجاہد، ص:۹۱۔