کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 764
میں بزدلی پیدا ہوگئی ہے یا تم دنیا کی محبت میں اس طرح پھنس گئے ہو جس طرح تمہارا دشمن مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی صرف اسی وقت مدد کرتا ہے جب ان کے دلوں میں سچی لگن ہو۔ میں نے چار مرد آہن (زبیر اور ان کے ساتھی) تمہاری مدد کے لیے بھیجے تھے اور تمہیں مطلع کیا تھا کہ میرے علم کے مطابق ان میں سے ہر ایک ہزار مردوں کے برابر ہے، یہ اور بات ہے کہ ان کو بھی دنیا کی محبت نے اسی طرح بدل دیا ہو جس طرح دوسروں کو بدل دیا ہے۔ جب تمہیں میرا یہ خط ملے فوراً لوگوں کو جمع کر کے تقریر کرو اور لوگوں کو ترغیب دو کہ سچی لگن اور پامردی سے لڑیں، ان چاروں مرد آہن کو فوج کے سامنے رکھو اور فوج کو حکم دو کہ تن واحد کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ یہ حملہ جمعہ کے دن زو ال آفتاب کے وقت ہو کیونکہ اس وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے اور دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس وقت لوگ اللہ کے سامنے گڑ گڑائیں اور اس سے فتح کے لیے دعائیں مانگیں۔ جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس یہ خط آیا تو آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور انہیں خط پڑھ کر سنایا پھر چاروں بہادروں کو بلایا اور انہیں فوج کے آگے کیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ غسل کر کے دو رکعت نماز پڑھ لیں، پھر خلوص وللہیت سے اللہ کی طرف دست بدعا ہوں اور فتح کی درخواست کریں، چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اللہ نے انہیں فتح نصیب کی۔[1] ایک روایت یہ بھی ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے مسلمہ بن مخلد انصاری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان لوگوں سے جنگ کے بارے میں مجھے مشورہ دو تو مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میری رائے ہے کہ آپ اصحاب رسول میں سے ایسے آدمی کو ڈھونڈیں جسے جنگی مہارت و تجربہ حاصل ہو اور اسے مسلمانوں کا قائد بنا کر لڑائی چھیڑ دیں، وہ براہ راست لڑے گا اور جنگ کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اس لائق کون ہے؟ انہوں نے کہا: عبادہ بن صامت۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا، جب وہ آپ کے قریب آئے تو اپنے گھوڑے سے اترنا چاہا، عمرو رضی اللہ عنہ نے انہیں اترنے سے روک دیا اور کہا: مجھے اپنے نیزہ کی انی دو، عبادہ نے نیزہ آپ کی طرف بڑھایا۔ عمرو رضی اللہ عنہ نے اپنے سر سے عمامہ اتارا اور نیزے کی انی میں باندھ دیا اور بطور علم انہیں نیزہ واپس کر کے رومیوں سے لڑائی کے محاذ پر بھیج دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی دن ان کے ہاتھوں اسکندریہ کو فتح کرایا۔[2] ایک اور روایت میں ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ان رومیوں سے جنگ کے بارے میں کئی بار سوچا اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ رومیوں کی آخری طاقت کی سرکشی کا سر وہی لوگ توڑ سکتے ہیں جنہوں نے ان کے پیشروؤں کا سر توڑا ہے، آپ کا اشارہ انصار کی طرف تھا۔ اس کے بعد آپ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کے ہاتھ میں علم دیا اور اللہ نے انہیں فتح نصیب کی۔[3] اور ابن عبدالحکم روایت کرتے ہیں کہ نو مہینے اسکندریہ کا محاصرہ جاری رہا اور ۲۰ہجری میں ماہ محرم کے آغاز
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، حمدی شاہین، ص:۲۲۶۔ بحوالۂ ابن عبدالحکم [2] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، حمدی شاہین، ص:۲۲۷۔ [3] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، حمدی شاہین، ص:۲۲۵۔ [4] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، حمدی شاہین، ص:۲۲۷۔