کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 763
ہے کہ اسکندریہ میں مسلمانوں سے لڑنے کے لیے اس نے بہ نفس نفیس تیاری کی تھی، لیکن جب تیاری مکمل کر چکا تو اسے مرگی کا دورہ پڑگیااور مر گیا اور اللہ مسلمانوں کی طرف سے اس کے لیے کافی ہوگیا۔[1] ہرقل کے مر جانے کے بعد بیزنطی حکومت لڑکھڑانے لگی، تو اس کے دونوں بیٹوں، قسطنطین اور ہرقل دوم (ہرقلیانوس) نے مل کر اس کی باگ ڈور سنبھالی اور ماضی کی وراثت کو برقرار رکھنے کی خاطر ’’ہرقلیانوس‘‘ کی ماں ’’مارٹینا‘‘ ان دونوں کی شریک کار رہی، لیکن ہرقل کو مرے ہوئے ابھی پورے سو دن بھی نہ گزرے تھے کہ اس کا لڑکا قسطنطین بھی اس دنیا سے چل بسا۔ اس کے مرجانے کے بعد شکوک وشبہات کی انگلیاں ہرقلیانوس کی ماں مارٹینا کی طرف اٹھنے لگیں کہ شاید تنہا اپنے لڑکے کو بادشاہت کی گدی پر بٹھانے کے لیے اس نے ایسا کیا ہے، جس کے نتیجہ میں مارٹینا کے خلاف بغاوت کی آگ بھڑک اٹھی اور کئی مہینے شہر فتنوں کے شعلوں میں جلتا رہا، بالآخر ملک میں اس وقت امن بحال ہوا جب قسطنطین کا لڑکا کونسٹانس اپنے چچا ہرقلیانوس کی مشارکت سے بیزنطی بادشاہت کی قیادت کرنے لگا۔[2] اسکندریہ اپنی فصیلوں کی استواری، ضخامت، محل وقوع اور محافظوں کی کثرت کی وجہ سے دفاعی اعتبار سے اپنا منفرد مقام رکھتا تھا۔ اس کے شمال میں (بحرمتوسط) بہتا تھا، جو اس وقت رومیوں ہی کے قبضہ میں تھا۔ جنوب میں بحیرئہ مریوط تھا، جس کا عبور کرنا بہت مشکل بلکہ ناممکن تھا، یہ قدیم زمانے میں دریائے نیل کی شاخوں میں سے ایک شاخ کا نام (نزعۃ الثعبان) تھا، مغرب سے اسکندریہ کو اپنی لپیٹ میں لیے تھا۔ صرف مشرق کی سمت باقی تھی جہاں سے ایک راستہ اسکندریہ کو جاتا تھا، وہ یہی راستہ تھا جو کریون سے اسکندریہ تک ملا ہوا تھا۔[3] جب محاصرہ کئی مہینوں تک طویل ہوگیا تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے دل میں یہ اندیشے پیدا ہونے لگے کہ کہیں آپ کی فوج اکتا تو نہیں گئی یا دشمن سے مقابلہ کرنے کی اس میں ہمت نہیں رہی۔ اس لیے آپ نے چند فوجی دستے تیار کیے اور ڈیلٹائے نیل اور صعید کے گاؤں اور بستیوں میں انہیں ترکتازی کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا، لیکن دوسری طرف یہ محاصرہ جوں جوں طویل ہوتا جا رہا تھا خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ناراض ہو رہے تھے اور اسلامی لشکر کی تیاریوں اور جنگی کارروائی کے بارے میں مختلف قسم کے شبہات و بدگمانیاں آپ کے دل میں پیدا ہو رہی تھیں۔ آپ سوچنے لگے تھے کہ شاید تاخیر کی وجہ اسلامی فوج کی عیش پرستی ہے۔[4]اس بات کو آپ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام تحریر کیے ہوئے خط میں صراحت سے لکھا: حمد وصلاۃ کے بعد! میں حیران ہوں کہ اب تک تم مصر فتح نہیں کر سکے، حالانکہ دو سال سے لڑ رہے ہو۔ اس کی وجہ اس بات کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے کہ تمہارے دلوں
[1] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۵۔ [2] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۵۔ [3] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص:۲۲۵۔ [4] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص: ۲۲۶۔ [5] الدولۃ الإسلامیۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص: ۲۲۶۔