کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 755
نے اس پر موافقت کی؟[1] اس سلسلہ میں روایات میں اختلاف ہے، لیکن اس اختلاف کے باوجود فتح مصر کے جو عوامل واسباب بتائے گئے ہیں وہ اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ خلیفۂ وقت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس پر راضی تھے اور یہ صرف عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا خیال تھا، یا یہ کہ مصر کی سر زمین، آب وہوا اور وہاں دشمن کی کثرت تعداد کا انہیں پورا علم نہیں تھا۔ تاریخی روایات میری رائے کی تائید کرتی ہیں۔ ابن عبدالحکم صراحتاً تحریر کرتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شام فتح ہو جانے کے بعد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا کہ ’’لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر مصر پر چڑھائی کے لیے تیار کرو، جو تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں انہیں ساتھ لے کر جاؤ۔‘‘[2]طبری لکھتے ہیں کہ ’’ایلیا (بیت المقدس) والوں سے مصالحت کرنے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کئی دنوں تک قیام کیا اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو اس ہدایت کے ساتھ مصر بھیجا کہ اگر اللہ نے اس پر فتح دی تو تم وہاں کے امیر ہوگے۔ ان کے پیچھے ہی زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں ایک امدادی فوج روانہ کی۔ اس بات کی تائید ان امدادی افواج کی روانگی سے بھی ہوتی ہے جنہیں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مختلف جہات سے مصر بھیجا تھا اور ان کی تعداد بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) پہنچ گئی تھی۔ نیز بلا اختلاف تمام مؤرخین اس بات کے قائل ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسکندریہ کی فتح کے لیے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا۔[3] اسلامی فتوحات کا رخ مصر کی جانب بازنطینی رومی حکومت کے سقوط کے اعتبار سے، فتح مصر سے اسلامی فتوحات کے تیسرے مرحلہ کا آغاز ہوتا ہے۔ چنانچہ فلسطین کے بعد سمندر کے برابر میں چلتے ہوئے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فلسطین سے مصر پہنچے۔ ’’رفح، عریش اور فرما سے فاتحانہ اقدام کرتے ہوئے قاہرہ اور پھر اسکندریہ تک پہنچ گئے۔ فوجی کارروائی کے لیے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا ساحلی راستہ اختیار کرنا ان کی عسکری مہارت کی دلیل ہے۔ شاید آپ نے یہ راستہ اس لیے اپنایا تھا کہ بلاد شام کی طرح اس راستے میں رومیوں کی کوئی عسکری قوت موجود نہ تھی اور یہ وجہ بھی رہی ہوگی کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے لیے یہ راستہ جانا پہچانا تھا۔ اس طرح آپ ذیل کی ترتیب کے مطابق مسلسل فاتحانہ اقدام کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے، فتوحات کے تسلسل اور تقدیم و تاخیر کے متعلق تاریخی روایات میں کچھ اختلاف ہے، جیسے کہ بلاد شام کی فتوحات میں کہیں کہیں ہمیں نظر آیا ہے، اس لیے میں اس کی توجہ کرنے کی کوشش کروں گا۔[4] ۱: فتح فرما: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مغرب کی طرف چلے، ’’فرما‘‘ سے پہلے کسی بھی رومی سپاہی سے ملاقات نہ ہوئی، بلکہ جگہ جگہ مصریوں نے ان کا استقبال کیا۔ سب سے پہلے ’’فرما‘‘ میں محاذ آرائی ہوئی۔ رومیوں نے یہ خبر پا کر کہ عمرو رضی اللہ عنہ
[1] عصر الخلافۃ الراشدۃ/ أکرم العمری ص:۳۴۸۔ [2] دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ، ص:۳۵۷۔ [3] فتوح الشام، أزدی، ص:۱۱۸۔ [4] دراسات فی عہد النبوۃ والخلافۃ الراشدۃ، ص:۳۵۷۔