کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 751
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے جس رات حمص سے دمشق کوچ کرنے کا ارادہ کیا اسی رات سفیان بن عوف کو امیر المومنین رضی اللہ عنہ کے پاس یہ پیغام کہلوا کر بھیجا کہ امیرالمومنین کو میرا سلام کہنا اور جو کچھ تم نے دیکھا، جس چیز کا سامنا ہے، ہمارے مخبر جو خبر لائے ہیں، دشمن کی فوج کی کثرت سے اور ان سے دور ہی رہنے کامسلمانوں نے جو فیصلہ کیا ہے ان تمام باتوں سے امیرالمومنین کو مطلع کرنا، ساتھ میں یہ خط لکھ کر دیا: ’’حمدوصلاۃ کے بعد: میرے مخبر دشمن کے اس علاقے سے میرے پاس خبر لائے ہیں جس میں شاہ روم ٹھہرا ہے، انہوں نے مجھے بتایا کہ روم والے ہماری طرف رخ کرنے والے ہیں اور فوج کا اتنا عظیم لشکر تیار کر رہے ہیں جتنا اس سے قبل کسی بھی قوم سے لڑتے وقت تیار نہ کیا تھا۔ اس لیے میں نے مسلمانوں کو بلا کر انہیں واقعہ کی خبر دی اور مشورہ طلب کیا، سب کی یہ رائے طے پائی ہے کہ جب تک آپ کی رائے نہ آجائے تب تک ہم اپنی ہی جگہ ٹھہرے رہیں اور دشمن کی طرف نہ بڑھیں، میں آپ کے پاس ایسا آدمی بھیج رہا ہوں جسے ہمارے بارے میں ساری باتیں معلوم ہیں، آپ جو پوچھنا چاہیں اس سے پوچھ لیں، اسے اچھی طرح علم ہے، وہ ہمارے نزدیک امانت دار ہے، اللہ عزیز وعلیم سے ہم مدد کے طلب گار ہیں، وہی ہمیں کافی ہے اور وہی بہترنگران ہے۔‘‘[1] ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی امداد رسی کے لیے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی انوکھی جنگی تدبیر: جب عمر رضی اللہ عنہ کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے قاصد نے خط دیا اور صورت حال سے آگاہ کیا تو آپ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام خط لکھا: ’’جس دن یہ خط موصول ہو اسی دن ایک فوج قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں حمص بھیجو، وہاں ابوعبیدہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔‘‘ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے ایمرجنسی حالت میں پیش آنے والی جنگوں سے نمٹنے کے لیے تمام بڑے شہروں میں احتیاطی جنگی گھوڑے تیار کر رکھے تھے، کوفہ میں بھی (جہاں سعد رضی اللہ عنہ مقیم تھے) چار ہزار گھوڑے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے خط پاتے ہی ان گھوڑوں کے ساتھ مجاہدین کو محاذ شام پر روانہ کر دیا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے خط میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ بھی لکھا تھا کہ: ’’سہیل بن عدی کی سرکردگی میں ایک فوج (جزیرہ کے شہر) رقہ میں بھیج دو، جزیرہ کے لوگوں نے ہی رومیوں کو حمص پر حملہ کے لیے ابھارا ہے اور ان سے پہلے قرقیسیا کے باشندے یہی حرکت کر چکے ہیں، دوسری فوج عبداللہ بن عتبان کی سالاری میں ’’نصیبین‘‘ پر چڑھائی کے لیے روانہ کر دو، یہاں کے باشندوں کو بھی اہل قرقیسیا نے حملہ کے لیے اکسایا تھا، پھر ’’حران‘‘ (جزیرہ کا پایہ تخت) اور
[1] جولۃ فی عصر الخلفاء الراشدین، ص: ۲۰۳، ۲۰۴۔ [2] الطریق إلی دمشق، ص: ۴۰۸،۴۰۹۔ [3] الأنصار فی العصر الراشدی، ص:۲۰۷۔ [4] الطریق إلی الشام، ص: ۴۱۰، ۴۱۱۔