کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 748
رہائش کا جائزہ لینا چاہتے ہیں، امیرالمومنین! میرے متعلق آپ تک جو شکایات پہنچی ہیں بس وہی کافی ہیں۔ اس وقت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابوعبیدہ! تمہارے علاوہ ہم سب کو دنیا نے بدل دیا ہے۔[1] امام ذہبی رحمہ اللہ یہ واقعہ لکھنے کے بعد فرماتے ہیں: یہ ہے حقیقی زہد و تقویٰ کی مثال اور جو شخص فقر و ناداری کی وجہ سے اسراف سے بچا رہے اس میں زہد کا کیا مطلب؟[2] ہشام بن عروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ جب عمر رضی اللہ عنہ شام آئے تو تمام امرائے لشکر اور بڑوں بزرگوں نے آپ کا استقبال کیا۔ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ میرا بھائی کہاں ہے؟ لوگوں نے پوچھا: کون؟ آپ نے فرمایا: ابوعبیدہ بن جراح۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ ابھی آپ کے پاس آرہے ہیں۔ اتنے میں ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ رسی سے نکیل زدہ اونٹنی پر سوار ہو کر آپہنچے۔ السلام علیکم کہا، عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے خیریت معلوم کی پھر لوگوں سے کہا: آپ لوگ جائیں اور آپ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ چل کر ان کے گھر آئے، اندر گئے، گھر میں تلوار، ڈھال اور کجاوے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔[3] ط: معاہدۂ بیت المقدس سے متعلق چند باتیں: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے جو صلح نامہ تحریر کیا تھا وہ اس بات کا حقیقی ثبوت ہے کہ اسلام رواداری کا دین ہے، اس میں کوئی جبرواکراہ نہیں۔ اس کے عدل وانصاف کی یہ شہادت ہے کہ قدس کے نصرانی باشندوں کے ساتھ اس نے ایسا برتاؤ کیا جسے انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔ فاتح بیت المقدس سیّدناعمر رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ چاہتے تو ان پر تاوان عائد کر دیتے، اپنی مرضی پر چلنے کے لیے مجبور کرتے، لیکن آپ نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اس لیے کہ آپ اسلام کے نمائندہ تھے اور اسلام کسی کو جبراً مسلمان نہیں بناتا، بلکہ جب تک کوئی آدمی اپنی رضا مندی اور پسند سے اسلام نہ لائے وہ قابل قبول ہی نہیں، ایمان ایسی چیز ہے ہی نہیں کہ جس پر لوگوں کو مجبور کیا جائے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست دل سے ہے اور دل کے بھیدوں کو اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ آپ ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو بظاہر مومن ہیں حالانکہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے،ا یسے انسان مومنوں کے لیے ان کافروں سے زیادہ نقصان دہ ہوتے ہیں جو علی الاعلان کفر والحاد کرتے ہیں۔ اسی لیے مسلمانوں نے ہمیشہ اس بات کو ترجیح دی کہ تمام انسانوں کو عبادت و بندگی کی آزادی دیں اور ان کے پسندیدہ امور میں انہیں امان دیں، تاکہ وہ مسلمانوں کی حفاظت وحمایت میں زندگی گزار سکیں بشرطیکہ وہ لوگ حفاظت اور دفاع کے بدلے جزیہ ادا کرتے رہیں۔ مزید یہ کہ خوشگوار زندگی کے سائے میں رہنے، باہمی تعلقات کے استوار ہونے، پڑوس کے بہتر برتاؤ سے متاثر ہونے، مسلمانوں کی حفاظت میں زندگی گزارنے اور ان کے عادلانہ نظام سے مستفید ہونے کی وجہ سے غیر مسلم افراد قریب سے اسلام
[1] محض الصواب ۲/ ۵۹۰، اس کی سند صحیح ہے۔ [2] مسند أحمد، الموسوعۃ الحدیثیۃ، حدیث نمبر ۱۱۷۔ یہ حدیث صحیح ہے، اس کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔