کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 743
بات چیت کرنے کے لیے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو سفیر بنا کر بھیجا، رومیوں نے آپ کے استقبال کے لیے تیاریاں کیں، زیب وزینت کی عمدہ سے عمدہ چیزوں، قیمتی وچمکدار اسلحہ، نگاہیں خیرہ کر دینے والے بیش قیمت قالینوں اور پردوں سے مجلس سجائی تاکہ معاذ رضی اللہ عنہ اپنے مقصد سے بہک جائیں یا کم از کم نفسیاتی طور پر دب جائیں اور یہ شان وشوکت انہیں مرعوب کر دے۔ لیکن آپ نے ان کی اس زیب وزینت کی محفل کو کوئی اہمیت نہ دے کر سب کو اچنبھے میں ڈال دیا، آپ نے زہد و تواضع کا مظاہرہ کر کے دل گرفتگی کی تمام تدبیروں اور بہکاوے کی تمام چالوں کو ناکام کر دیا، بلکہ رومیوں کے خلاف اس موقع کو بطور ہتھیار استعمال کیا، بایں طور کہ اپنے گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ میں رکھی، رومی کمانڈر کے غلام کو اسے دینے سے انکار کر دیا، آپ کے استقبال کے لیے جو مجلس سجائی گئی تھی اس پر بیٹھنے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اپنے کمزوروں کا حق مار کر تم جس فرش و قالین کی مجلس سجاتے ہو میں اس پر نہیں بیٹھوں گا اور ننگی زمین پر بیٹھ گئے، پھر کہنے لگے: ’’میں اللہ کے بندوں میں سے اس کا ایک بندہ ہوں، اللہ کی زمین پر بیٹھتا ہوں، اللہ کا مال لے کر اپنے بھائیوں پر ظلم نہیں کرتا ہوں۔‘‘[1] ان کے درمیان اور بھی گفتگو ہوئی، انہوں نے آپ سے اسلام کے بارے میں پوچھا، آپ نے انہیں اسلام کا تعارف کرایا، انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں مسلمانوں کا عقیدہ پوچھا، آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: ﴿إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ (59)(آل عمران: ۵۹) ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی مثال ہو بہو آدم( علیہ السلام ) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کہہ دیا کہ ہوجا! پس وہ ہوگیا۔‘‘ آپ نے ان کے سامنے مسلمانوں کا مقصد واضح کیا اور یہ آیت پڑھ کر سنائی: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قَاتِلُوا الَّذِينَ يَلُونَكُمْ مِنَ الْكُفَّارِ وَلْيَجِدُوا فِيكُمْ غِلْظَةً(التوبۃ: ۱۲۳) ’’اے ایمان والو! ان کفار سے لڑو جو تمہارے آس پاس ہیں اور ان کو تمہارے اندر سختی پانی چاہیے۔‘‘ رومیوں نے توہین آمیز لہجے میں کہا کہ اہل فارس پر مسلمانوں کو اس لیے فتح مل گئی تھی کہ ان کا بادشاہ مر گیا تھا، روم والوں پر تمہاری فتح نہ ہوگی کیونکہ ان کا بادشاہ زندہ ہے اور افواج کا کوئی شمار ہی نہیں۔ آپ نے نہایت بے باکی سے کہا: اگر تمہارا بادشاہ ہرقل ہے تو ہمارا بادشاہ اللہ ہے اور ہمارا امیر ہم ہی میں سے ایک آدمی ہے، اگر
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۳۶۔ [2] سیر أعلام النبلاء: ۳/ ۳۸۶،۳۸۷، التاریخ الإسلامی: ۱۰/۳۱۹۔