کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 738
بیت المقدس کے محافظ دستوں کے مقابلہ کے لیے پہلے بھیجے گئے تھے وہ سب اجنادین آکر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے آملے، پھر آپ اپنا پورا لشکر لے کر بیت المقدس کا محاصرہ کرنے کے لیے آگے بڑھے۔[1] مسلمانوں نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں بیت المقدس کے چاروں طرف پڑاؤ ڈال دیا اور جناب عمرو رضی اللہ عنہ نے شہر والوں کے لیے محاصرہ تنگ کرنا شروع کیا۔ شہر مقدس کافی محفوظ ومستحکم تھا، اس کی فصیلوں کی حفاظت و پائیداری کے بارے میں واقدی کا بیان ہے کہ اس پر منجنیق، سنگ بار آلات، تلواروں، خود اور اعلیٰ معیار کی زرہوں سے لیس سپاہی ہمہ وقت چاق و چوبند کھڑے رہتے تھے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ محاصرہ کے تیسرے دن جنگ اس وقت شروع ہوئی جب مسلمان فصیلوں کی طرف آگے بڑھے، وہاں کے محافظ دستوں نے پیش قدمی کرتے ہوئے مسلمان فوج پر تیروں کی بوچھاڑ کر دی، مسلمانوں نے اپنی زرہوں اور خودوں سے اس کا مقابلہ کیا، لڑائی صبح کے وقت شروع ہوتی اور شام کو بند ہو جاتی، اسی طرز پر کئی دنوں تک لڑائی کا سلسلہ جاری رہا اور جب دس دن اسی حالت پر گزر گئے تو گیارھویں دن ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما اور ساتھ میں شہ سوار مجاہدین و جانباز موحدین کو لے کر آپہنچے،[2]انہیں دیکھ کر بیت المقدس والوں کا دل خوف سے دہل گیا۔ تاہم چار مہینے محاصرہ جاری رہا اور کوئی دن خالی نہ جاتا تھا کہ جس میں زبردست مقابلہ نہ ہوتا رہا ہو۔ اس طرح مسلمان سخت سردی، بارش اور برفیلی ہواؤں کو برداشت کرتے رہے اور صبر وعزیمت کا مظاہرہ کرتے رہے۔[3] یہاں تک کہ رومی فوج مسلمانوں کے محاصرہ کا مقابلہ کرنے سے مایوس ہوگئی، ان کے بطریق ’’صفرونیوس‘‘ نے اس بلائے بے درماں سے نجات پانے کے لیے اپنی آخری کوشش شروع کی اور مسلمانوں کے قائد عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام جذبات کو بھڑکانے والا ایک خط تحریر کیا کہ ’’محاصرہ ختم کر دو، شہر مقدس پر تمہیں فتح پانا نا ممکن ہے۔‘‘[4] ۲: استسلام (خودسپردگی): روم کے ارطبون نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے نام جو خط روانہ کیا تھا اس میں لکھا تھا: ’’تم میرے دوست ہو اور میرے ہم رتبہ ہو، تمہاری قوم میں تمہارا وہی مقام ہے جو میری قوم میں میرا مقام ہے۔ اللہ کی قسم! اجنادین کے بعد اب تم فلسطین کا کوئی حصہ فتح نہیں کر پاؤ گے۔ اس لیے واپس لوٹ جاؤ اور دھوکے میں نہ رہو، ورنہ تمہیں بھی اپنے پیش رووں کی طرح منہ کی کھانی پڑے گی۔‘‘[5]
[1] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی، د/ یاسین وسوید، ص:۳۶۔ [2] حروب القدس فی التاریخ الإسلامی والعربی، د/ یاسین وسوید، ص:۳۶۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۳۳۔ [4] تاریخ الطبری، ص: ۴؍۴۳۳۔