کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 734
’’ہم وہ جانباز ہیں جنہوں نے طویل سے طویل اور دشوار گزار سفر طے کر کے عراق اور شام کو فتح کیا۔‘‘ فتح بیسان وطبریہ: ابوعبیدہ اور خالد رضی اللہ عنہما امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق اپنی اپنی فوج لے کر حمص کی طرف چلے گئے اور شرحبیل بن حسنہ کو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما نے اردن پر اپنا قائم مقام مقرر کیا، چنانچہ شرحبیل رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو لے کر آگے بڑھے اور بیسان کا محاصرہ کر لیا، وہاں کے لوگ مقابلہ کے لیے باہر نکلے، خونریز جنگ ہوئی ، بہت سے رومی قتل کیے گئے اور بالآخر جس طرح دمشق کی صلح ہوئی تھی اسی طرح انہوں نے بھی صلح کر لی، شرحبیل رضی اللہ عنہ نے ان پر جزیہ اور زمینوں پر خراج لگا دیا۔ ابوالاعور السلمی رضی اللہ عنہ نے طبریہ والوں کے ساتھ بھی بالکل یہی برتاؤ کیا۔[1] معرکہ حمص ۱۵ ہجری: ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے روم کی شکست خوردہ فوج کا حمص تک پیچھا کیا اور وہاں پہنچ کر شہر کا محاصرہ کر لیا، پیچھے سے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی آگئے اور دونوں نے محاصرہ کافی سخت کر دیا۔ سخت سردی کا موسم تھا حمص والوں نے کچھ دن اس امید پر محاصرے کی صعوبتیں برداشت کیں کہ شاید سردی کی تاب نہ لا کر اسلامی فوج یہاں سے واپس لوٹ جائے، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بے مثال صبر وعزیمت کا ثبوت دیا۔ چنانچہ مؤرخین لکھتے ہیں کہ رومیوں کے پاؤں میں خف (چمڑے کے موزے) ہوتے تھے، پھر بھی ان کے پاؤں شل ہو جاتے، جب کہ صحابہ کے پاؤں میں جوتوں کے علاوہ کچھ نہ ہوتا تھا، لیکن نہ ان کے پاؤں متاثر ہوئے نہ انگلیاں، اس طرح وہ لوگ موسم سرما کی شدت برداشت کرتے رہے اور وہ موسم ختم ہوگیا۔ اس کے بعد مسلمانوں نے محاصرہ اور سخت کر دیا۔ حمص کے سردار آگے آئے اور مصالحت کی خواہش ظاہر کی، لیکن اسلامی فوج نے یہ کہتے ہوئے اسے ماننے سے انکار کر دیا کہ ’’کیا ہم صلح کر لیں حالانکہ ہم قیصر شاہ روم کے بالکل قریب پہنچ چکے ہیں؟‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دن صحابہ نے اتنی بلند آواز سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ اس سے پورا شہر دہل اٹھا اور زمین میں ایسی لہر پیدا ہوئی کہ دیواروں میں جگہ جگہ شگاف پڑ گئے۔ پھر دوسری تکبیر کا نعرہ لگایا، نعرہ اتنا زوردار تھا کہ لگتا تھا کہ بعض مکانات گر جائیں گے۔ خوف اور مصائب سے تنگ آکر مص کی عوام اپنے سرداروں کے پاس آئی اور کہا: ہمارے اوپر جو مصیبت نازل ہوئی ہے اور ہماری جو حالت ہے کیا آپ لوگ اسے دیکھتے نہیں؟ آپ لوگ حملہ آور اسلامی فوج سے ہمارے بارے میں صلح کیوں نہیں کر لیتے؟ راوی کا بیان ہے کہ پھر جس طرح باشندگان دمشق نے صلح کی تھی کہ نصف بستی ہماری اور نصف تمہاری ہوگی، زمینوں پر لگان دیں گے اور مالداری و محتاجی کے اعتبار سے ہر فرد پر جزیہ لازم ہوگا، اسی طرح یہاں کے لوگوں نے بھی صلح کر لی۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے مال غنیمت کا خمس اور فتح کی بشارت کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج