کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 731
روکنے کے لیے یہ حربہ استعمال کیا جاتا ہے، چنانچہ اس حربہ کے ذریعہ سے رومی فوج مسلم شہسواروں کی پیش قدمی روکنے میں کامیاب رہی۔ دراصل رومیوں نے پانی، کیچڑ اور دلدل کی اس زمین کو فحل کی زبردست دفاعی لائن مقرر کیا تھا حالانکہ وہاں کی زمین پہلے کافی ہموار تھی۔ اگر وہ زمین اپنی اصلی حالت پر باقی رہتی تو مسلم فوج بآسانی شہر میں داخل ہو سکتی تھی، کیونکہ وہ صحراؤں میں جنگ لڑنے کی عادی تھی۔ پس ان مخدوش حالات کے پیش نظر عمار بن مخشن رضی اللہ عنہ نے آگے قدم نہ بڑھایا اور فوج کو ’’فحل‘‘ کے محاصرہ کا حکم دے دیا، بے شک ان کی پیش قدمی خطرے سے خالی نہ تھی، کیونکہ دونوں افواج کی تعداد میں کافی تفاوت تھا، آگے بڑھنا کافی دشوار گزار تھا، اور کیچڑ و دلدل والی اس زمین کو عبور کرنا ناممکن سا نظر آتا تھا، چنانچہ مسلمانوں نے ’’فحل‘‘ کے محاصرہ پر اکتفا کیا یہاں تک کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ دارالحکومت دمشق کو فتح کر کے فارغ ہوگئے اور اپنی فوج کو ابوالاعور السلمی رضی اللہ عنہ کی فوج میں ضم کر دیا۔ اور پھر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے نئے سرے سے اسلامی لشکر کو ترتیب دیا: * مقدمہ: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ * میمنہ: ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ * میسرہ: عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ * شہسوار دستے:ضرار بن ازور رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ * پیدل دستے:عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ اور جنرل کمانڈر شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دی، کیونکہ میدان جنگ کا علاقہ انہی کے دائرہ کمان میں آتا تھا۔ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ نے قیادت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی، پھر فوج اور ان کے امدادی وسائل کو منظم کیا، لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک کو محاذ جنگ پر نکل جانے اور دوسرے کو ناگہانی حالات میں کوچ کرنے کے لیے تیار رہنے کا حکم دیا۔ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ پوری تیاری کے ساتھ شب وروز کے ہر لمحے چاق چوبند رہے۔[1] مسلمانوں کی طرف سے ’’فحل‘‘ کا محاصرہ طویل ہوگیا، ایک دن رومیوں نے سوچا کہ کیوں نہ راتوں رات مسلمانوں پر اچانک زبردست حملہ کر کے ان کا صفایا کر دیا جائے۔ اس وقت رومی فوج کی کمان سقلاب بن مخراق کے ہاتھ میں تھی، چنانچہ اپنی منصوبہ بندی کے مطابق انہوں نے مسلمانوں پر یکایک فرد واحد کی طرح پوری مستعدی کے ساتھ دھاوا بولا اور زبردست جنگ چھڑ گئی۔ معرکہ پوری رات اور دوسرے دن شام تک جاری رہا، پھر جب رات نے اپنی سیاہ چادر دراز کرنا شروع کی تب رومی بھاگ کھڑے ہوئے اور ان کا سالار اعلیٰ قتل کیا گیا اور مسلمان ان کے مقتول کندھوں کو روندتے اور ہزیمت خوردہ ونیم مردہ لاشوں کو کیچڑ و دلدل میں لتاڑتے ودفناتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کی حفاظتی کارروائیوں اور جنگی استعداد کے
[1] ترتیب وتہذیب البدایۃ والنہایۃ، ص:۵۸۔۵۹، العملیات التعرضیۃ والدفاعیۃ عند المسلمین: ۱۸۵۔