کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 728
سب کھا پی کر فارغ ہوئے اور خوب مست ہو کر سوگئے اور اپنی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوگئے۔ شام ہوئی تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھ رومی مخبر کو لیا، قعقاع بن عمرو اور مذعور بن عدی رضی اللہ عنہما کو بھی ساتھ لے کر آگے بڑھے اور باقی فوج سے کہا کہ جب تم فصیل پر نعرہ تکبیر سننا تو ہماری طرف چڑھ آنا اور لپک کر دروازے کھول دینا۔[1] اس طرح خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے چمڑے کے دو مشکیزوں کے سہارے پانی سے لبریز خندق کو عبور کیا[2] اور فصیل تک پہنچ گئے اور رسیوں میں پھندا لگا کر انہیں سیڑھی کے کام لانے کے لیے فصیل کی بالائی سطح سے پھنسا دیا، جب رسی کا پھندا اچھی طرح پھنس گیا تو قعقاع اور مذعور رضی اللہ عنہما پھندوں کے ذریعہ اوپر چڑھ گئے اور دوسری جتنی رسیاں اس مقصد کے لیے تیار کی گئی تھیں سب کو فصیل سے نیچے لٹکا دیا، تاکہ ہمارے پیچھے کے دیگر فوجی اس کے سہارے فصیل پر چڑھ جائیں پھر جو لوگ پہلے چڑھے تھے وہ خاموشی سے فصیل کے اندر اتر کر دروازے تک پہنچ گئے اور خالد رضی اللہ عنہ کے ساتھ کافی لوگ جمع ہوگئے۔ آپ جب فصیل کی بلندی پر چڑھے تب زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا، یہاں تک کہ دوسری جماعت بھی وہاں تک پہنچ گئی اور پھر سب لوگوں نے نیچے اتر کر فصیل کے دروازے کا رخ کیا اور اس کی کنڈیوں کو تلوار سے کاٹ کاٹ کر الگ کر دیا، اس طرح اسلامی فوج دمشق میں داخل ہوگئی۔[3] فتح دمشق کے اہم دروس و عبر اور فوائد فتح دمشق بذریعہ صلح یا جنگ؟ دمشق کیسے فتح ہوا تھا، بذریعہ صلح یا بذریعہ جنگ؟ اس سلسلہ میں مؤرخین کا اختلاف ہے۔ اکثر مؤرخ اس بات کے قائل ہیں کہ صلح پر معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔ کیونکہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں کہ پہلے کیا ہوا اور بعد میں کیا؟ یعنی کیا شروع میں بذریعہ جنگ فتح کا دروازہ کھلا اور بعد میں رومیوں نے مصالحت کر لی یا شروع ہی سے وہ صلح جو تھے؟ یا فریق ثانی کے دباؤ میں آکر بدرجہ مجبوری صلح کی؟ چنانچہ اس شک کی بنا پر اس صلح کو وقتی و احتیاطی صلح کا نام دیا ہے۔ اور بعض مؤرخین کے نزدیک دمشق کا نصف حصہ بذریعہ صلح اور نصف حصہ بذریعہ جنگ فتح ہوا۔ اس قول کی تائید صحابہ کے اس عمل سے ہوتی ہے کہ انہوں نے جب مسیحیت کے سب سے بڑے کنیسہ پر قبضہ کیا تو نصف اپنے حصہ میں رکھا اور نصف نصرانیوں کے لیے چھوڑ دیا۔[4]واللہ اعلم فتح دمشق کا تاریخی تعین: حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ ’’سیف بن عمر سے مروی روایت کا سیاق اس بات کا متقاضی ہے کہ فتح دمشق ۱۳ ہجری میںہو، لیکن سیف کی منصوص روایت جمہور کی روایت کی تائید کرتی ہے یعنی ۱۵ رجب ۱۴ہجری میں دمشق فتح
[1] الہندسۃ العسکریۃ، ص: ۱۹۲۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۲۵۹۔