کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 727
قلب میں: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ۔ میمنہ اور میسرہ میں: عمرو بن عاص اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہما ۔ گھوڑ سواروں کا جرنیل: عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ ۔ پیدل فوج کے سپہ سالار: شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ ۔ چونکہ دمشق کی فصیلوں میں کافی مضبوط اور بڑے بڑے دروازے لگے ہوئے تھے، جن کی وجہ سے نہ شہر کے لوگ باہر نکل سکتے تھے اور نہ باہر کے لوگ اندر جا سکتے تھے۔ اس لیے اسلامی افواج نے حصار کی قوت کو اس طرح منظم کیا: * مشرقی دروازہ کا علاقہ، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ * باب جابیہ کا علاقہ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ * باب تو ما کا علاقہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ * باب فرادیش کا علاقہ شرحبیل بن حسنہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں۔ * باب صغیر کا علاقہ یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کی قیادت میں۔ رومیوں کا خیال تھا کہ مسلمان طویل محاصرہ کی تکلیفوں کو نہیں برداشت کر سکیں گے، خاص طور پر سردی کے اس موسم میں، لیکن پختہ عقیدہ اور صبر جمیل کے حامل ان نمائندہ مسلمانوں نے بدلتے ہوئے حالات کا نہایت پامردی سے مقابلہ کیا۔ مسلم قائدین نے غوطہ دمشق کے ویران کنیسوں اور خالی مکانات کو مسلمانوں کی راحت وآرام کے لیے استعمال کیا، ہفتہ واری نظام کے مطابق باری باری جو فوج محاذ پر ہوتی وہ آکر آرام کرتی اور جب وہ چلی جاتی تو دوسری فوج آکر آرام کرتی اور دروازوں پر متعین ان فوجی دستوں کے پیچھے ان کی حمایت ونگرانی کے لیے دوسری فوج مقرر ہوتی۔ اس طرح طویل سے طویل محاصرہ پر بھی قابو پانا بالکل آسان ہوگیا تھا۔[1]لیکن مسلمانوں نے اسی پر بس نہ کیا، بلکہ دشمن کی منظم رکاوٹوں کو توڑنے کے لیے ان کی میدانی تحقیقات اور جنگی چالیں اپنا کام کرتی رہیں اور رکاوٹوں کے اس منظم وطویل سلسلہ میں ایک ایسے مناسب مقام کے انتخاب میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کامیاب ہوگئے جہاں سے دمشق میں داخل ہوا جا سکتا تھا۔ وہ دمشق کا سب سے بہتر خطہ تھا، اس مقام پر پانی کافی گہرا تھا اور وہاں سے داخل ہونا کافی دشوار طلب تھا۔[2] آپ نے دمشق میں داخل ہونے کی تدبیر یہ نکالی کہ چند رسیوں کو اکٹھا کیا تاکہ فصیل پر چڑھنے اور دمشق میں اترنے کے لیے ان میں پھندا لگا کر سیڑھیوں کا کام لیا جا سکے۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو کسی ذریعہ سے یہ خبر مل گئی تھی کہ دمشق کے بطریق (رومیوں کا جرنل) کے یہاں بچے کی ولادت ہوئی ہے اور سارے لوگ، جن میں اس کے محافظ سپاہی بھی تھے، دعوت میں مشغول ہیں۔ چنانچہ وہ
[1] الہندسۃ العسکریۃ، ص: ۱۹۰، ۱۹۱۔