کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 723
قائدین لشکر کے نام عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف سے جو احکامات وہدایات دی گئیں ان میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے فوجی کارروائیوں کی قائدانہ ذمہ داریوں کو مقرر کر دیا اور اسی کے بموجب متوسط جنگی تحریک اور معتدل فوجی تگ و دو جاری ہوگئی، جب کہ جنگ کے پیچھے مطلوبہ اعلیٰ مقاصد کے حصول میں کوئی لچک دار رویہ نہیں اپنایا گیا۔ ان خطوط میں فاروقی تعلیمات سے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے پیش نظر کئی اہم مقاصد تھے: پہلا بنیادی مقصد ’’دمشق‘‘ پر قابض ہونا، دوسرا مقصد ’’فحل‘‘ فتح کرنا اور تیسرے نشانے پر ’’حمص‘‘ تھا۔ چنانچہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی انہی ہدایات کی روشنی میں ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے ’’فحل‘‘ کی طرف ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور ابو الاعور السلمی عامر بن حثمہ، عمرو بن کلیب، عبد عمر بن یزید بن عامر، عمارہ بن صعق بن کعب، صفی بن علیہ بن شامل، عمر بن حبیب بن عمر، لبدہ بن عامر، بشیر بن عصمہ اور عمارہ بن مخشن رضی اللہ عنہم کو ان دستوں کی الگ الگ قیادت پر مامور کیا اور ان سب کا قائد اعلیٰ عمارہ بن مخشن رضی اللہ عنہ کو بنایا۔[1] ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ خود اسلامی لشکر کے ساتھ دمشق کی طرف بڑھے، راستے میں کوئی قابل ذکر مزاحمت نہ ہوئی۔ کیونکہ رومیوں نے اس سے پہلے مسلمانوں کی پیش قدمی روکنے اور ان کے اثر و نفوذ پر قدغن لگانے کے لیے دمشق اور اس کے مضافات کے دیگر علاقوں کے باشندوں پر اعتماد کر رکھا تھا، لیکن رومیوں کے غلط برتاؤ اور خاص طور سے چھوٹی چھوٹی بستیوں میں ان کی نازیبا حرکات سے عاجز ہونے کی وجہ سے ان میں دفاع کی خاطر کوئی گرم جوشی نظر نہیں آئی[2] اور اسلامی افواج غوطہ دمشق میں جس میں رومیوں کے محلات اور ان کے خوبصورت مکانات تھے، داخل ہوگئیں۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ تمام محلات ومکانات خالی پڑے ہیں اور ان مکینوں نے بھاگ کر دمشق میں پناہ لے رکھی ہے۔ دوسری طرف ہرقل نے باشندگان دمشق کی مدد کے لیے پانچ سو (۵۰۰) جنگجوؤں کو بھیجا جو سنگین حالات سے نمٹنے اور واجبی ضرورت کی تکمیل کے لیے، بالکل ناکافی تھے۔[3]جب کہ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ نے ذوالکلاع کی قیادت میں شمالی دمشق میں جو اسلامی طاقت اتاری تھی وہ دمشق اور حمص کی افواج کو بار بار چیلنج دے رہے تھی اور دونوں افواج کے درمیان سخت معرکہ آرائی جاری تھی، بالآخر رومیوں کی شکست ہوئی۔[4] اہل دمشق نے ہر قل سے داد رسی کی درخواست کی، اس نے خط کے ذریعہ سے انہیں ثابت قدمی اور مقابلہ آرائی کی تلقین کرتے ہوئے امدادی فوج بھیجنے کا وعدہ کیا، جس کی وجہ سے اہل دمشق سنبھل گئے، ان کے ارادوں میں پختگی آگئی اور اسلامی فوج کی پیش قدمی اور ان کے محاصرہ کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے لگے۔[5]
[1] فتوح الشام، ص: ۹۹ تا ۱۰۲۔ [2] تہذیب وترتیب البدایۃ والنہایۃ، ص: ۵۲، الدعوۃ الإسلامیۃ فی عہد أمیر المؤمنین عمر بن خطاب، ص:۲۷۶۔