کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 720
(خلافت سے قبل) اصلاح نفس کی آپ کو فکر رہا کرتی تھی۔ اے عمر! اب آپ سیاہ و سفید پوری امت محمدیہ کے معاملوں کے ذمہ دار ہوگئے ہو۔ آپ کے پاس دوست ودشمن، بڑے چھوٹے، طاقتور اور کمزور سبھی آتے ہیں اور سب کا آپ پر حق ہے اور ان کا حق یہ ہے کہ آپ سے ان کو انصاف ملے، لہٰذا آپ دیکھیں ان کے لیے کیسا ثابت ہوتے ہیں؟ اے عمر! ہم آپ کو وہ دن یاد دلاتے ہیں جس دن سارے بھید کھل جائیں گے، پردے فاش ہو جائیں گے، دل میں چھپی باتیں ظاہر ہوں گی، سارے چہرے اللہ قاہر کے سامنے جھکے ہوں گے، اپنی عظمت وجلال سے وہ سب پر غالب ہوگا، سارے انسان اس کے پاس عاجزی کے ساتھ کھڑے ہوں گے اس کے فیصلے کے منتظر ہوں گے، اس کی سزا سے لرزاں ہوں گے اور اس کی رحمت کی امید لگائے ہوں گے۔ ہمیں یہ بات پہنچی ہے کہ اس امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو بظاہر دوست اور اندر سے دشمن ہوں گے، ہم اس برائی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ آپ ہماری اس تحریر کا غلط مفہوم نہ سمجھیں۔ والسلام علیک ورحمۃ اللہ۔‘‘[1] خالد بن ولید اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کے درمیان گفتگو: جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اپنی معزولی کا علم ہوا تو ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا: اللہ آپ کو معاف فرمائے، امیرالمومنین کی طرف سے آپ کی امارت کی نامزدگی کا خط جب آپ کے پاس آیا تو آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا اور میرے پیچھے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ قیادت آپ کی ہے؟ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: آپ کو بھی اللہ معاف فرمائے۔ میں آپ کو اس وقت تک خود نہیں بتانا چاہتا تھا جب تک کہ کوئی دوسرا آپ کو نہ بتا دے۔ آپ کے ہاتھوں جنگی فتوحات کا جو سلسلہ چل رہا تھا میں اسے منزل تک پہنچنے سے پہلے منقطع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس کے بعد میں آپ کو بتاتا۔ میں دنیا کا اقتدار نہیں چاہتا اور نہ دنیا کے لیے یہ سب کر رہا ہوں، جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں سب کا انجام زوال وخاتمہ ہے۔ ہم سب آپس میں بھائی ہیں اور اللہ کے دین کو قائم کرنے والے ہیں۔ ایک انسان کے لیے اس میں کوئی نقصان نہیں ہے کہ اس کا بھائی دین ودنیا میں اس کے قریب رہے۔ ہر حاکم اچھی طرح جانتا ہے کہ دین ودنیا دونوں میں وہ فتنہ کے زیادہ قریب اور غلطیوں میں زیادہ واقع ہونے والا ہے۔ اس لیے کہ اس کے سامنے اسباب ہلاکت بار بار آتے ہیں۔ اس مصیبت سے وہی بچ سکتا ہے جسے اللہ اپنی رحمت خاص سے بچا لے اور ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ اس کے بعد ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کا خط خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں میں دے دیا۔[2]
[1] تاریخ دمشق: ۲/۱۲۵۔