کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 719
(۱) فتوحات شام سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف سے شام بھیجے جانے والے سب سے پہلے خط میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات اور وہاں کی افواج پر ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی امارت کی خبر تھی۔ خط کا مضمون یہ تھا: ’’حمدوصلاۃ کے بعد معلوم ہو کہ خلیفہ رسول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہو چکی ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں ابوبکر پر جو حق پر عمل کرنے والے، صحیح کام کرنے والے، نرم مزاج، پاک باز، متواضع اور دانا تھے، میں اپنے اور سارے مسلمانوں کی اس مصیبت پر اللہ سے اجر خیر کا طالب ہوں۔ میری خواہش ہے کہ تقویٰ کے ذریعہ سے گناہ اور برائی سے بچ کر رحمت الٰہی کا مستحق بنوں۔ جب تک زندہ ہوں اس کی اطاعت میں لگا رہوں، مرنے کے بعد جنت میں جاؤں۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے دمشق کا محاصرہ کر لیا ہے۔ میں نے تمہیں مسلمانوں کا سالار اعلیٰ مقرر کر دیا ہے۔ تم حمص اور دمشق کے نواحی علاقے نیز شام کے دوسرے علاقوں میں فوجی دستے پھیلا دو، لیکن اس معاملہ میں اپنی اور دوسرے مسلمانوں کی رائے سے کام کرو، صرف میری اس تحریر سے اپنا لشکر خطرہ میں مت ڈال دینا کہ دشمن کو تمہیں نقصان پہنچانے کا حوصلہ ہو۔ جو لوگ تمہارے پاس زائد ہوں انہیں میرے بھیج دو اور جو محاصرہ میں تمہارے لیے ضروری ہوں ان کو اپنے پاس رکھو۔ خالد بن ولید کو روک لو کیونکہ ان کے بغیر تمہارا کام نہیں چل سکتا۔‘‘[1] خط ملنے کے بعد ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور انہیں خط پڑھ کر سنایا، دربار خلافت کے ایلچی نے زبانی یہ بھی کہا کہ اے ابوعبیدہ! عمر رضی اللہ عنہ نے تم سے کہا ہے کہ یزید بن ابوسفیان اور عمرو بن عاص کے بارے میں ہمیں مطلع کریں، ان دونوں کی کیا حالت ہے اور رہن سہن کیسا ہے؟ نیز مسلمانوں کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے ایلچی کو اپنی اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی طرف سے مشترکہ جوابی خط دیا، اس کا موضوع یہ تھا: ’’ابوعبیدہ بن جراح اور معاذ بن جبل کی طرف سے عمر بن خطاب کے نام! السلام علیکم ہم اللہ واحد کی تعریف کرتے ہیں جس کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں۔ امابعد! ہم دیکھ رہے ہیں کہ