کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 715
جنگی تحریکوں کی بتدریج پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کے جوشیلے نوجوانوں کو یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ اس روئے زمین پر اقامت دین واسلامی اقتدار کے لیے اپنے عمل میں تدریج اور مرحلہ وار پیش رفت ہونی چاہیے کیونکہ یہ سفر بہت طویل ہے۔ اس لیے خاص طور سے ہمارے جو احباب دعوت اسلام کا کام کر رہے ہیں انہیں اس سنت الٰہی کی ہمہ جہت افادیت اور معنوی قوت کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے۔ عراق اور بلاد مشرق (عجم) میں صبح وشام کے چند لمحات میں اسلامی فتوحات کا پرچم نہیں لہرایا تھا، بلکہ بتدریج عمل کی انجام دہی والی سنت الٰہی اس میں کار فرما تھی۔ ۸: افکار واخلاق میں تبدیلی برپا کرنے کی سنت الٰہی : اللہ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ(الرعد: ۱۱) ’’کسی قوم کی حالت اللہ تعالیٰ نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے فتوحات عراق و بلاد مشرق (عجم) کے دوران اس ربانی نظام کو ان اقوام کے ساتھ پورا پورا برتا جو دین الٰہی میں داخل ہونا چاہتی تھیں۔ قرآنی تعلیمات اور ہدایاتِ نبوی پر لوگوں کی تربیت کی اور ان کے دلوں میں صحیح عقائد، درست افکار اور بلند اخلاق کے پودے لگائے۔ ۹: گناہوں اور بد اعمالیوں کے بارے میں سنت الٰہی: اللہ کا فرمان ہے: ﴿أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّنْ لَكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِمْ مِدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَأَنْشَأْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ (6)(الانعام:۶) ’’کیا انھوں نے نہیں دیکھا ہم نے ان سے پہلے کتنے زمانوں کے لوگ ہلاک کر دیے، جنھیں ہم نے زمین میں وہ اقتدار دیا تھا جو تمھیں نہیں دیا اور ہم نے ان پر موسلا دھار بارش برسائی اور ہم نے نہریں بنائیں، جو ان کے نیچے سے بہتی تھیں، پھر ہم نے انھیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر دیا اور ان کے بعد دوسرے زمانے کے لوگ پیدا کر دیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے فارسی قوم کو اس کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کر دیا، ان گناہوں میں سب سے عظیم اور گھناؤنا شرک اور کفر کا گناہ تھا۔ پس اس آیت میں ایک ٹھوس حقیقت کی نشان دہی اور اٹل قانون الٰہی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، وہ یہ کہ گناہ، گناہ گاروں کو ہلاکت کی دعوت دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ گنہگاروں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کرتا ہے۔[1] یہی وجہ رہی کہ جب امت مسلمہ نے روئے زمین پر غلبہ واقتدار پانے کی الٰہی شرطوں اور ربانی
[1] السنن الإلٰہیہ فی الامم والجماعات والأفراد ص:۱۹۳۔ [2] السنن الإلٰہیۃ فی الأمم والجماعات والأفراد، ص: ۱۹۳، بحوالہ تفسیر قرطبی۔ [3] السنن الإلٰہیۃ، ص: ۱۹۴۔