کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 709
کیا وہ باطل معبود کے راستے میں لڑتے ہیں۔ پس تم شیطان کے دوستوں سے لڑو، بے شک شیطان کی چال ہمیشہ نہایت کمزور رہی ہے۔ ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسلمانوں سے جہاد کی فضیلتیں بتائیں جن کی وجہ سے ان کے احساسات جاگ گئے اور قوتیں دوبالا ہوگئیں۔ ان احادیث نبویہ میں سے چند احادیث یہ ہیں: * ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں کون سب سے اچھا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ((مُؤْمِنٌ یُّجَاہِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ۔)) [1] ’’مومن جو اپنی جان اور مال سے اللہ کے راستے میں جہاد کرے۔‘‘ * آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین کا بلند مقام بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا: (( إِنَّ فِی الْجَنَّۃِ مِائَۃَ دَرَجَۃٍ اُعَدَّہَا اللّٰہُ لِلْمُجَاہِدِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ مَا بَیْنَ الدَّرَجَتَیْنِ کَمَا بَیْنَ السَّمَائِ وَالْاَرْضِ فَاِذَا سَأَلْتُمُ اللّٰہَ فَاسْئَلُوْہُ الْفِرْدَوْسَ فَإِنَّہٗ اَوْسَطُ الْجَنَّۃِ وَأَعْلَی الْجَنَّۃِ۔)) [2] ’’جنت میں سو درجے ہیں جن کو اللہ نے جہاد کرنے والوں کے لیے تیار کیا ہے، ہر دو درجوں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا آسمان وزمین میں ہے، لہٰذا جب تم اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو تو فردوس کا سوال کرو۔ فردوس جنت کا سب سے اونچا اور بیچ کا حصہ ہے۔‘‘ * آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کی فضیلت و کرامت کو ان الفاظ میں بیان کیا: (( اِنْتَدَبَ اللّٰہُ لِمَنْ خَرَجَ فِیْ سَبِیْلِہٖ لَا یُخْرِجُہٗ اِلَّا اِیْمَانٌ بِیْ وَتَصْدِیْقٌ بِرُسُلِیْ اَنْ اَرْجِعَہٗ بِمَا نَالَ مِنْ اَجْرٍ أَوْ غَنِیْمَۃِ أَوْ أُدْخِلَہُ الْجَنَّۃَ وَلَوْ لَا أَنْ أَشُقَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا قَعَدْتُ خَلْفَ سَرِیَّۃٍ وَلَوَدِدْتُ أَنِّیْ أُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ أَحْیَاثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ أَحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ۔)) [3] ’’جو شخص خلوص نیت کے ساتھ مجھ پر ایمان رکھتے ہوئے اور میرے رسول کی تصدیق کرتے ہوئے اللہ کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے پکار کر کہتا ہے کہ اسے مال غنیمت اور اجر عظیم کے ساتھ (اس کے گھر) لوٹا دوں گا یا جنت میں داخل کروں گا۔ اگر میں اپنی