کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 705
کی۔ پھر مال غنیمت کا خمس اور مژدہ فتح کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس قاصد بھیجا گیا۔[1] اس طرح دور فاروقی میں پورے بلاد عراق وایران پر اسلامی فتح کا پرچم بلند ہوگیا اور مسلمانوں نے مختلف علاقوں میں مسلح افواج کی چوکیاں قائم کر دیں تاکہ بھگوڑے ایرانی دوبارہ در اندازی کی کوشش نہ کریں۔ درحقیقت کافی جانفشانی اور مشقتیں برداشت کرنے کے بعد مشرق (عجم) میں اسلامی فتوحات کے پرچم بلند ہو سکے۔ مسلمانوں اور ان کے مقابل دشمنوں کے نسلی تفاوت کی وجہ سے مسلمانوں کو عظیم قربانیوں کے نذرانے پیش کرنا پڑے۔ ایران کے باشندے فارسی تھے، ان کی زبان، جنس اور ثقافت ہر چیز عربوں سے جداگانہ تھی۔ ان کی بہادری کی طویل تاریخ اور تہذیب وتمدن کی گہری جڑیں انہیں بار بار قومی حمیت وغیرت کا احساس دلاتی تھیں۔ بالخصوص وہ اس لیے بھی غم وغصہ سے پھٹے جا رہے تھے کہ جنگ ان کے گھروں میں گھس کر ان کے سینے پر لڑی جا رہی تھی۔ باوجودیہ کہ مجوسی علماء وقائدین کی رغبت پر ان کے ہم مذہبوں کی اچھی خاصی تعداد ان کے ساتھ تھی اور وہاں کی فضا بھی ان کا ساتھ دے رہی تھی۔ مزید برآں اسلامی فوج کافی دور یعنی بصرہ اور کوفہ سے آکر ان پر حملہ آور ہوئی تھی۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے دشمن کے تمام تر فوجی مراکز برباد ہوگئے اور عہد فاروقی یا عہد عثمانی میں انہیں فتح کر لیا گیا۔[2] 
[1] تاریخ الطبری: ۵/۱۶۸، ۱۶۹۔(شرح أصول اعتقاد أہل السنۃ/ اللالکائی، اثر نمبر: ۲۵۳۷) علامہ البانی رحمہ اللہ نے مشکوٰۃ المصابیح کے حاشیہ میں اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔ (۳/۱۶۷۸) حدیث نمبر: (۵۹۵۴) اور دیکھئے: تہذیب البدایۃ والنہایۃ، ص: ۱۷۰، علماء نے اس کو عمر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے شمار کیا ہے۔ [2] تہذیب البدایۃ والنہایۃ، ص: ۱۷۱۔ [3] تہذیب البدایۃ والنہایۃ، ص: ۱۷۱۔ [4] تہذیب البدایۃ والنہایۃ، ص: ۱۷۱۔ [5] تاریخ الطبری: ۵/۱۷۲، ۱۷۳، ۱۷۴۔ [6] ’’بیروذ‘‘ اور نہرتیرے‘‘ اہواز کے قریب کے چھوٹے چھوٹے شہر ہیں ۔