کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 701
اور طبلہ بجا رہا ہے۔ احنف اس کی طرف بڑھے اور طرفین سے نیزوں کا تبادلہ ہوا، احنف کا وار کامیاب رہا اور یہ شعر پڑھتے ہوئے اسے قتل کر دیا: إن علی کل رئیس حقًا أن یخضب الصعدۃ أو تندقا ’’یہ سردار پر واجب ہے کہ نیزے کو خون سے رنگ دے یا (لڑتے لڑتے) ٹوٹ جائے۔‘‘ إن لہا شیخًا بہا ملقی سیف أبی حفص الذی تبقی ’’اس نیزے کو چلانے والا بے شک ایک بوڑھا ہے۔ ابو حفص کی تلوار ہی باقی رہے گی۔‘‘ پھر ترک فوجی سے اس کے گلے کا طوق چھین لیا اور اس کی جگہ کھڑے ہوگئے، دوسرا باہر آیا، اس کے ساتھ ایک طبلہ تھا وہ اسے بجا رہا تھا۔ احنف اس کی طرف بڑھے اور اسے بھی قتل کر دیا اور اس کا طوق چھین لیا، پھر تیسرا فوجی نکلا اس کو بھی قتل کر کے اس کا طوق لے لیا۔ پھر احنف جلدی سے لوٹ کر اپنی فوج میں واپس آئے اور اس واردات کی خبر کسی ترک سپاہی کو نہ ہوئی۔ ترک افواج کے یہاں جنگ لڑنے کا یہ رواج تھا کہ وہ آغاز جنگ سے پہلے ادھیڑ عمر کے تین آدمیوں کو آگے بھیجتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک باری باری طبلہ بجاتے آگے جاتا تھا۔ بہرحال تینوں کا کام تمام ہونے کے بعد ترک فوجی آگے آئے تو دیکھا کہ ان کا شہ سوار دستہ زمین پر مقتول پڑا ہے۔ اس واردات کو خاقان نے بدشگونی پر محمول کیا اور اپنی فوج سے مخاطب ہو کر کہا: اب ہمارا پڑاؤ لمبا ہو چکا ہے اور ہمارے آدمی ایسی جگہ مارے جا چکے ہیں کہ ہم نے کبھی اس کا تصور بھی نہ کیا تھا۔ اس قوم ( مسلمانوں) سے جنگ کرنے میں ہمارے لیے بھلائی نہیں ہے، ہمیں لوٹ جانا چاہیے اور پھر سب واپس لوٹ گئے۔[1] مسلمانوں نے احنف سے کہا کہ اگر ان کا پیچھا کیا جائے تو کیسا رہے گا؟ احنف نے کہا: اپنی جگہ ٹھہرے رہو، انہیں جانے دو۔ احنف کا فیصلہ بالکل درست تھا، اس لیے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (( اُتْرُکُوْا التُرَّکَ مَا تَرَکُوْکُمْ۔)) [2] ’’ترک جب تک تمہیں نہ چھیڑیں تم انہیں نہ چھیڑو۔‘‘ فرمان الٰہی سچ ہے: ﴿وَرَدَّ اللّٰهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا وَكَفَى اللّٰهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللّٰهُ قَوِيًّا عَزِيزًا(الاحزاب: ۲۵)
[1] خراسان کے خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے، نہر جیحون کے قریب واقع ہے۔