کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 699
نے اسے امیر لشکر سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا۔ اس نے سراقہ سے امان طلب کی، آپ نے اسے امان دینے کا معاہدہ کر لیا۔ اس کے بعد سراقہ نے بکیر بن عبداللہ لیثی، حبیب بن مسلمہ، حذیفہ بن اسید اور سلمان بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو ان پہاڑی علاقوں میں بھیجا جو آرمینیہ کے حدود میں آتے تھے مثلاً تفلیس اور موقان وغیرہ۔ بکیر نے موقان فتح کیا اور وہاں کے باشندوں کو امان دی۔ اسی دوران امیر لشکر سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اس دار فانی سے کوچ کر گئے اور عبدالرحمن بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کو ان کا قائم مقام منتخب کر لیا گیا۔ جب سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ملی تو آپ نے انہیں امیر لشکر نامزد کیا اور ’’ترک‘‘ پر چڑھائی کرنے کا حکم دیا۔[1] ترکوں سے پہلا معرکہ: عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف سے عبدالرحمن بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے نام ترکوں پر لشکر کشی کا جب حکم آیا تو آپ نے کارروائی شروع کی اور حکم فاروقی کی تعمیل میں اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے ’’باب‘‘ سے آگے بڑھے۔ یہ پیش قدمی دیکھ کر شہربزار نے کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ترکوں کے بادشاہ بَلَنْجَرْ کو زیر کرنا ہے۔ شہر بزار نے کہا کہ ہمیں ان سے صلح کر لینی چاہیے۔ ہم باب کے پیچھے ہیں۔ عبدالرحمن نے جواب دیا: اللہ نے ہمارے پاس رسول بھیجا، اس کی زبان سے ہمیں اپنی مدد وکامیابی کا یقین دلایا اور اب تک ہم بحمد اللہ کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ پھر آپ نے آگے بڑھ کر ترک والوں سے جنگ کی اور بلنجر کے حدود سلطنت میں دو سو فرسخ تک اندر گھستے چلے گئے۔ متعدد حملے کیے اور پھر دور عثمانی میں بھی آپ کے مثالی کارنامے رہے۔[2] معرکۂ خراسان ۲۲ ھ: احنف بن قیس رضی اللہ عنہ نے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا تھا کہ بلاد عجم میں اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے دیں اور کسریٰ یزدگرد کو چاروں طرف سے گھیر لیں، اس لیے کہ مسلمانوں کے خلاف فارسی افواج کو لڑانے کا وہی اصل محرک ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ کو یہ رائے پسند آئی اور آپ نے اس بات کی اجازت دے دی۔ احنف ہی کو امیر لشکر مقرر کیا اور بلاد خراسان کو فتح کرنے کی ذمہ داری انہیں سونپ دی۔ احنف نے اسلامی افواج کا ایک انبوہ لے کر یزدگرد کے خلاف خراسان پر چڑھائی کی، خراسان میں داخل ہوئے اور لڑتے ہوئے ’’ہرات‘‘ کو فتح کیا۔ وہاں صحار بن فلان العبدی کو اپنا نائب بنایا اور خود مرو الشاہجان[3]کی طرف آگے بڑھے، کیونکہ وہاں یزدگرد موجود تھا، آپ نے اپنے آگے مطرف بن عبداللہ شخیر کو نیساپور اور حارث بن حسان کو ’’سرخس‘‘[4] روانہ کیا۔ جب احنف مرو الشاہجان کے قریب پہنچے تو یزدگرد وہاں سے بھاگ کر ’’مرو الروذ‘‘ چلا گیا۔ احنف نے آسانی سے مرو الشاہجان کو فتح کر لیا اور وہاں ٹھہر گئے۔ ادھر یزدگرد جونہی مرو الروذ پہنچا اس نے شاہ ترک خاقان، شاہ صغد اور شاہ چین
[1] آذربائیجان ایک وسیع رقبہ اور پہاڑیوں والی ریاست ہے۔ بلاد دیلم سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں ۔ [2] تاریخ الطبری: ۵/۱۴۱، ۱۴۲۔ [3] طبرستان کی ساحل پر ایک بڑا شہر ہے۔