کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 690
(۳) معرکہ نہاوند (فتح الفتوح) مسلمانوں نے متعدد معرکوں میں پے در پے ایرانی فوج پر فتح حاصل کی تھی اور مسلسل ان کی شکست خوردہ باقی ماندہ فوج کو پیچھے دھکیل رہے تھے۔ انہیں سانس لینے کا موقع نہ دیتے تھے۔ عراق میں معرکہ قادسیہ میں شاندار فتح سے لے کر نہاوند کی فیصلہ کن جنگ تک چار سال کا عرصہ گزرا جس میں مسلمانوں نے کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ ان کا لشکر فتح پر فتح پانے کے باوجود اپنی پیش قدمی کو جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت سن رسیدہ شہنشاہیت کے بھگوڑوں کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ لیکن ایک طویل عرصے سے جنگ میں مصروف فوج کی تنظیم نو اور مفتوحہ علاقوں کے نظم ونسق کو بہتر بنانے کے پیش نظر اگر دربار خلافت سے یہ فاروقی حکم نہ آتا کہ اب پیش قدمی روک دی جائے اور فوج زاغروس کے پہاڑوں سے آگے نہ بڑھے تو یقینا ایرانیوں کا اسی وقت صفایا ہو جاتا۔[1] مسلمانوں کے ہاتھوں مسلسل ہزیمت اور خاص طور سے معرکہ قادسیہ کے بعد کے حالات نے ایرانیوں کی غیرت کو للکارا اور ان کی زندگی کو بے کیف کر دیا لیکن تنہا ان حالات کا مقابلہ کرنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ اس لیے ان کے سرداروں اور رؤسا نے اپنے بادشاہ یزدگرد کے نام پیغام بھیجا اور مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے جنگ چھیڑنے کی اپیل کی۔ یزدگرد نے اپیل منظور کر کے جنگ کا پختہ ارادہ کر لیا اور دوبارہ زور شور کے ساتھ مسلمانوں سے معرکہ آرائی کے لیے جنگی تیاریاں شروع کر دیں تاکہ سلطنت کی باقی ماندہ پناہ گاہوں اور قلعوں سے قوت لی جا سکے۔ چنانچہ باب سے لے کر سجستان اور خراسان تک کے پہاڑی علاقوں کے باشندوں کے نام خط لکھا کہ سب لوگ مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے نکل پڑیں اور نہاوند میں اکٹھے ہوں۔ گویا نہاوند مقابلہ کا وہ آخری مرکز ٹھہرا جس پر یزدگرد نے دستخط کیے اور یہی میدان جنگ قرار دیا گیا۔ نہاوند ایک محفوظ شہر ہے جو ہر طرف سے پہاڑیوں سے گھرا ہوا ہے۔ وہاں تک پہنچنا آسان نہیں۔ دشوار گزار راستوں سے چل کر ہی وہاں پہنچا جا سکتا ہے۔ ایرانی اس شہر میں اکٹھے ہونے لگے۔ تیس ہزار (۳۰۰۰۰) باب سے، ساٹھ ہزار (۶۰۰۰۰) خراسان سے اور ساٹھ ہزار سجستان سے حلوان پہنچ کر یزدگرد کے کل ایک لاکھ پچاس ہزار (۱۵۰۰۰۰) جنگجو جمع ہوگئے۔ یزدگرد نے فیرزان کو ان کا سپہ سالار مقرر کیا۔[2] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو فارسی فوج کے اس
[1] تاریخ الطبری: ۵/ ۷۳۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۱/۲۱۷۔ [3] تاریخ الطبری: ۵/۱۰۹۔