کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 687
انہوں نے تکبر نہ کیا اور نہ اترائے بلکہ ایک متواضع و پارسا انسان کی طرح پر خطر حالات سے نمٹتے اور معرکوں میں گھستے رہے اور خوش کن نتائج سامنے لاتے رہے۔ باوجودیہ کہ آپ کے ہاتھوں میں کوئی قیادت اور سپہ سالاری نہ تھی۔ براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے دشمن پر فتح یابی کے لیے اللہ سے جہاں تمام مسلمانوں کی مدد کے لیے دعا فرمائی جس میں اسلام اور مسلمانوں کی عزت و سربلندی کا راز پنہاں تھا۔ وہیں آپ نے اپنے وجود کو فراموش نہ کیا اور ایک سچے پکے مومن کی جو دلی تمنا ہوتی ہے اسے بھی اللہ سے کہہ گزرے۔ یعنی اپنی شہادت کا مطالبہ کیا اور اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی، دشمن کو شکست دیتے ہوئے اس دن براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے شہداء کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا۔[1] امیرالمومنین سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور ہرمزان کے درمیان گفتگو: مسلمانوں کے سپہ سالار ابو سبرہ بن ابو رہم رضی اللہ عنہ نے ہرمزان کو ایک وفد کے ساتھ امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا۔ جب وہ لوگ مدینہ پہنچے تو ہرمزان کو اس کی شاہی شکل وہیئت میں تیار کیا۔ اسے اس کا ریشمی لباس پہنایا جس میں سونا جڑا ہوا تھا۔ یاقوت و زمرد سے مرصع ’’اذین‘‘ تاج اس کے سر پر رکھا، تاکہ عمر رضی اللہ عنہ اور سارے مسلمان اسے شاہی ہیئت میں دیکھ لیں۔ پھر اسے لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچے، آپ اپنے گھر پر نہ ملے، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مسجد میں کوفہ سے آئے ہوئے ایک وفد کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ وہ سب اسے لے کر مسجد پہنچے، آپ وہاں بھی نہ ملے۔ جب واپس لوٹنے لگے تو راستے میں مدینہ کے چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا، بچوں نے ان سے پوچھا: کس کی تلاش ہے؟ کیا آپ لوگ امیرالمومنین کو ڈھونڈ رہے ہیں؟ وہ تو مسجد کے دائیں حصہ میں اپنی برنس کو تکیہ بنائے سو رہے ہیں۔ دراصل آپ نے اہل کوفہ کے وفد کے استقبال میں برنس پہنی تھی اور ان کے ساتھ بیٹھے تھے، ان کی مجلس سے فارغ ہونے اور وفد کے چلے جانے کے بعد آپ نے برنس اتاری اور تکیہ کی جگہ رکھ کر سو گئے۔ وہ سب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور آپ سے کچھ دور ہی بیٹھے، اس وقت مسجد میں آپ کے علاوہ کوئی آدمی بیدار یا سوتا ہوا نظر نہ آیا۔ آپ کے ہاتھ میں دُرّہ تھا۔ ہرمزان نے کہا: عمر کہاں ہیں؟ وفد نے بتایا کہ یہی عمر ہیں اور پھر لوگوں کو خاموش رہنے کی تلقین کرنے لگے۔ ہرمزان نے وفد سے بصد اہتمام و توجہ پوچھا کہ ان کے دربان اور محافظ کہاں ہیں؟ وفد نے کہا کہ: ان کا کوئی دربان، محافظ، کاتب اور دیوان نہیں ہوتا۔ ہرمزان نے کہا: تب تو یہ نبی ہیں۔ وفد نے کہا: نبی نہیں ہیں لیکن نبی کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ آہستہ آہستہ لوگوں کی تعداد بڑھ گئی۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ لوگوں کی آہٹ سے بیدار ہوئے اور اٹھ کر بیٹھ گئے، پھر ہرمزان پر نظر ڈالی اور کہا: کیا یہ ہرمزان ہے؟ وفد نے جواب دیا: ہاں۔ آپ نے اس پر اور اس کے لباس پر گہری نگاہ ڈالی اور کہا: جہنم کے عذاب سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اور اللہ سے مدد کا طالب ہوں۔ ہر قسم
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۶۳، ۶۴۔ [2] الأنصار فی العصر الراشدی، ص: ۲۲۳۔ [3] سنن الترمذی/ المناقب: ۵/۶۵۰، حدیث نمبر: ۳۸۵۴۔