کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 685
اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک فوج مدد کے لیے روانہ کی، اس طرح ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بصرہ کا گورنر ہونے کی وجہ سے بصری فوج کے سپہ سالار اور ابو سبرہ رضی اللہ عنہ پورے لشکر کے سپہ سالار تھے۔ مسلمانوں نے وہاں پہنچ کر تستر کا محاصرہ کیا اور یہ محاصرہ کئی مہینے جاری رہا۔ مختلف مواقع پر دشمن کی فوج پر تقریباً اسّی (۸۰) حملے کیے گئے اور دعوت مبارزت دینے والے مسلم بہادر اپنی بہادری کے جوہر دکھاتے رہے، صرف مبارزت میں سو فارسیوں کو قتل کیا اور شہرت پائی۔ ان میں بصرہ کے براء بن مالک، مجزأۃ بن ثورہ، کعب بن سور، ابو تمیمہ اور کوفہ کے حبیب بن قرہ، ربعی بن عامر اور عامر بن عبداللہ اسودرضی اللہ عنہم قابل ذکر ہیں۔[1] مسلمانوں اور دشمنوں کے درمیان جب جنگ اپنے آخری اور فیصلہ کن مرحلے سے گزر رہی تھی تو مسلمانوں نے براء بن مالک رضی اللہ عنہ کو پکار کر کہا: اے براء اپنے رب کی قسم کھاؤ کہ وہ یقینا ہمارے دشمنوں کو شکست دے گا۔ براء بن مالک رضی اللہ عنہ نے دست دعا دراز کیے اور کہا: (( اَللّٰہُمَّ اہْزِمْہُمْ لَنَا، وَاسْتَشْہِدْنِیْ۔)) ’’اے اللہ! دشمن کو ہمارے مقابلہ میں شکست دے دے اور مجھے شہادت نصیب فرما۔‘‘ مسلمانوں نے جنگ کی دھار تیز کر دی اور اپنے دشمنوں کو شکست فاش دی، دشمن بھاگ کر خندق میں کود پڑے، وہ بھی ان پر چڑھ دوڑے۔ اس طرح جب فارسی سخت مشکل میں گھر گئے اور مسلمانوں کی طرف سے حصار سخت ہوگیا تو دو مختلف سمتوں سے دو فارسیوں نے مسلمانوں سے رابطہ کر کے انہیں بتا دیا کہ شہر سے پانی نکلنے والے نالے سے اندر جا کر شہر فتح کیا جا سکتا ہے۔ نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کو جب یہ خبر ملی تو آپ نے اپنے اہم ساتھیوں کو وہاں بھیجا اور کوفہ و بصرہ کے نامور بہادر اس جگہ رات میں ملے، پھر اسی راستے سے شہر کے اندر گھس گئے اور نعرئہ تکبیر بلند کیا، جو لوگ باہر کھڑے تھے انہوں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور اندر گھس کر دروازہ کو کھول دیا، جو فارسی دروازوں کے پاس تھے، معمولی مزاحمت کے بعد وہ بھی پیچھے ہٹ گئے۔[2] اس معرکہ میں براء بن مالک اور مجزأۃ بن ثور رضی اللہ عنہما نے ہرمزان کے مارنے سے جام شہادت نوش کیا۔ اس وقت مسلمان معرکہ میں فتح پا چکے تھے اور ہرمزان جو فارسیوں کا سپہ سالار تھا بھاگ کر قلعے میں روپوش ہوگیا۔ جانبازوں کا وہی پہلا دستہ جو نالے کے راستے سے شروع شروع میں شہر میں داخل ہوا تھا، قلعہ کا چکر کاٹنے لگا اور ہرمزان تک پہنچ گیا۔ جب انہوں نے ہرمزان کو آنکھوں سے دیکھ لیا اور بالکل اس کے سامنے پہنچ گئے تو ہرمزان نے ان سے کہا: اب جو چاہو کر سکتے ہو، میں جس مشکل میں ہوں اور تم لوگ بھی جن پریشانیوں سے گزر رہے ہو اسے دیکھ رہے ہو۔ میرے ترکش میں سو تیر ہیں، جب تک میرے پاس ایک تیر بھی بچے گا، واللہ تم لوگ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے اور نہ تمہارا کوئی تیر مجھے لگ سکتا ہے۔ اگر میں ہر تیر کے بدلے تم میں سے سو لوگوں کو مردہ یا
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۶۱، ۶۲۔