کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 672
معزز رہے۔ اس دن سب سے پہلے دشمن کے تیر نے آپ کو زخمی کیا۔ بعض لوگوں نے کہا: اسے ان کے جسم سے نکال دو۔ تو آپ نے جواب دیا: مجھے چھوڑ دو جب تک میرے جسم میں جان ہے، شاید کسی مقابل کو نیزہ، تلوار یا طاقت کے ذریعہ سے موت کے گھاٹ اتار سکوں۔ یہ کہہ کر دشمن کی طرف لپکے اور اصطخر کے شہر یار نامی ایک فارسی کو تہ تیغ کر دیا۔[1] مسلمانوں کی طرف سے تقریباً دو مہینے ’’بہرسیر‘‘ کا محاصرہ جاری رہا، اس دوران فارسی حلفاء کی طرف سے تیار کی گئی بیس منجنیقوں کے ذریعہ سے مسلمان فوجیں دشمن کے علاقہ پر پتھر برساتی رہیں۔ جس کی وجہ سے دشمن کو مزید کسی تیاری کا موقع نہ مل سکا اور ان کی صبح وشام خوف وہراس میں گزرنے لگی۔[2] ہم یہاں ذرا صحابہ کرام کی کمال دانائی دیکھیں کہ جب بھی انہیں مدد کے مادی اسباب سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا اسے ہاتھ سے نہ گنوایا اور اس ارشاد الٰہی کو یاد رکھا: ﴿وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ(الانفال: ۶۰) ’’تم ان کے مقابلہ کے لیے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو۔‘‘ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب مدد کے روحانی ومعنوی اسباب مہیا کرنے میں وہ ساری دنیا سے آگے تھے اور معنوی اسباب میں سے جو خاص صفت ان میں نمایاں تھی وہ تھی اعتماد الٰہی، ذکر الٰہی اور رب عظیم کے سامنے دست دعا کی درازی۔[3] آیئے اب عبرت کی نگاہوں سے فتح مدائن کا مطالعہ کریں ۱: اللہ کے نیک بندوں کے ساتھ تائید ومددالٰہی : انس بن حلیس سے روایت ہے کہ جب ہم ’’بہرسیر‘‘ کا محاصرہ کیے ہوئے تھے تو فارسی حکومت کا ایک ایلچی ہمارے پاس آیا اور کہا کہ شاہ فارس کا کہنا ہے کہ کیا آپ لوگ اس شرط پر ہم سے مصالحت کے لیے راضی ہیں کہ دریائے دجلہ کے اس پار (یعنی مشرق میں) جو علاقے ہیں وہ ہم لے لیں اور اس پار (یعنی مغرب میں جہاں مسلم فوج تھی) جو علاقے ہیں بشمول پہاڑ وغیرہ وہ آپ لوگ لے لو؟ کیا اتنے سارے علاقوں پر قبضہ ہونے کے بعد بھی ابھی تم آسودہ نہیں ہو؟ ایلچی کی بات سن کر ابو مفزز اسود بن قطبہ لوگوں کو پیچھے کرتے ہوئے آگے بڑھے اور جلال میں کیا کچھ کہہ گئے انہیں یاد نہ رہا اور ہم لوگ بھی یاد نہ کر سکے۔ ایلچی واپس لوٹ گیا، پھر ہم نے دیکھا کہ جلد ہی فارسی (اس کا حکمران طبقہ و عوام) لوگ (مشرقی) مدائن کی طرف کوچ کر رہے ہیں۔ ہم نے پوچھا: اے ابو مفزز تم نے اس سے کیا کہا تھا۔ ابو مفزز نے کہا: اللہ کی قسم ! جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا مجھے
[1] إتمام الوفاء، ص: ۸۲۔ [2] التاریخ الإسلامی، ۱۱/۱۵۵۔