کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 663
اور کہا: تم نے میری اجازت کا انتظار کیوں نہیں کیا؟[1] سعد رضی اللہ عنہ کی اس کارروائی کی خبر عمر رضی اللہ عنہ کو ملی تو آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ زہرہ جیسے لوگوں کے ساتھ تم یہ برتاؤ کرتے ہو، حالانکہ اس نے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اور ابھی تمہیں بہت سی جنگیں لڑنی ہیں، تم اس کی عظمت توڑنا چاہتے ہو اور اس کا دل چھوٹا کرنا چاہتے ہو، اس نے جو چھینا ہے وہ اسے دے دو، اس کے ساتھیوں کو حصہ دیتے وقت اسے مزید پانچ سو درہم بطور انعام دو۔ اسی طرح ہر وہ مجاہد جس نے دشمن کے کسی سپاہی کو قتل کیا ہے اسے اپنے دشمن سے چھینا ہوا مال بطور انعام زیادہ دے دو، چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ نے جالینوس کے ہتھیار وپوشاک زہرہ کو واپس لوٹا دیے اور اسے زہرہ نے ستر ہزار درہم میں فروخت کیا۔[2] اس طرح سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے زہرہ کا اعتماد بحال کیا۔[3] ۶: مؤذن کی شہادت اور اذان دینے کے لیے مسلمانوں کا باہمی مسابقہ: معرکہ قادسیہ فتح کے دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو اس بات کا غماز ہے کہ دور اوّل کے مسلمان اپنے مذہبی معاملات اور عبادات الٰہی کا کتنا زبردست اہتمام کرتے تھے۔ واقعہ یوں ہے کہ اس دن مسلمانوں کے مؤذن جہاد کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے اور جب اذان کا وقت ہوا تو اذان دینے کے لیے مسلمان حضرات ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتے تھے اور یہاں تک نوبت پہنچ گئی کہ اس کے لیے میان سے تلواریں باہر آگئیں۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے یہ منظر دیکھا تو ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور جس آدمی کا نام نکلا اس نے اذان دی۔[4] یقینا ایک عمل صالح کے لیے اس قدر باہمی مقابلہ اس دور کے مسلمانوں کی ایمانی قوت کی دلیل ہے، کیونکہ اذان کے ذریعہ سے دنیا کی کسی کمائی، جاہ ومنصب کی طلب یا شہرت و ناموری کے حصول کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس تنافس و باہمی مقابلہ کی محض ایک ہی وجہ تھی وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے موذنوں کے لیے قیامت کے دن جو عظیم ثواب و بدلہ تیار کر رکھا ہے اسے کسی طرح حاصل کیا جا سکے۔ پس ایسی قوم جو اذان دینے کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانا چاہتی ہے وہ بدرجہ اولیٰ اس سے عظیم عبادات اور ثواب الٰہی کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھ نکلنے کے لیے کوشاں ہوگی، بلا شبہ عبادت الٰہی کا یہی شوق جہاد فی سبیل اللہ اور اسلامی دعوت کی ترقی وکامیابی کا عظیم راز تھا۔[5] ۷: معرکہ قادسیہ میں مسلمانوں کی عسکری و فوجی حکمت عملی: معرکہ قادسیہ اسلامی عسکریت کے لیے اپنائی جانے والی حکمت عملی کی ایک منفرد مثال ہے۔ اس جنگ میں
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۴۸۷۔ [2] أمیرالمومنین عمر بن خطاب الخلیفۃ المجتہد/ العمرانی، ص: ۱۶۳۔ [3] خلافۃ الصدیق والفاروق، الثعالبی، ص:۲۵۳۔