کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 661
سختی ہو یا خوشحالی، عدل پروری اگرچہ بظاہر نرم چیز ہے لیکن اس کی تاثیر بہت مضبوط ہے۔ ظلم کی آگ کو بجھانے والی اور باطل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے والی ہے اور ظلم اگرچہ بظاہر سخت چیز ہے، لیکن وہ فکر وعقل کو چاٹ لینے والی ہے۔ باشندگان عراق کے جو زمیندار ذمی اپنے عہدوپیمان پر قائم رہے اور کسی بھی طرح تمہارے خلاف اقدام نہ کیا، تو تم ان کا ذمہ لو اور وہ تمہیں جزیہ دیں اور ان میں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ فارسی فوج نے انہیں تمہارے خلاف لڑنے پر مجبور کیا اور انہوں نے ان کا ساتھ دیا، یا وہاں سے نکل گئے تھے، تو ان کی تصدیق مت کرو، مگر یہ کہ تم اس میں کوئی مصلحت سمجھو تو دوبارہ واپس آنے کی اجازت دے سکتے ہو اور اگر انہیں اجازت نہیں دینا چاہتے ہو تو ماضی کا عہد توڑ دو اور انہیں ان کے وطن واپس لوٹا دو۔‘‘[1] اس جواب میں کئی حکمتیں اور پند وموعظت کی باتیں ہیں، مثلاً: * انصاف پروری ہی اسلامی حکومت کی بقا و پائیداری اور اسلامی شہروں میں امن وسکون برقرار رکھنے کے لیے اسلامی حکومت کا ایک عظیم ستون ہے۔ انصاف پروری کا یہ نتیجہ دنیا میں بالکل ظاہر ہے اور آخرت میں کوئی بھی ظالم عذاب الٰہی سے بچ نہ سکے گا، کیونکہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے والے بندوں کو اللہ تعالیٰ معاف بھی کر سکتا ہے، لیکن جہاں تک بندوں کے حقوق کا مسئلہ ہے تو اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ بروز قیامت ظالم کے ساتھ مظلوم کو بھی کھڑا کرے گا اور اس سے بدلہ دلوائے گا۔ * یاد الٰہی میں اس قدر محو ہونا چاہیے کہ وہی مسلمان کی زندگی کی قیادت کرے، یعنی اس کے دل، زبان اور تمام اعضاء و جوارح میں ذکر الٰہی کا جذبہ گردش کرتا رہے، اس کی فکر و تدبیر خالص للہیت پر مبنی ہو، بات کرے تو رضائے الٰہی مطلوب ہو، عمل کرے تو محض اللہ کی خوشنودی کا طالب ہو۔ گویا اس کی زندگی کا عظیم ترین مقصد یہ ہو کہ اعتقادی، عملی اور زبانی ہر اعتبار سے روئے زمین پر ذکر الٰہی کا چرچا ہو۔ اگر انسان ان صفات عالیہ کا حامل ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے شبہات و شہوات کے فتنوں سے بچا لے گا۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور آپ کے مجاہدین ساتھیوں نے امیرالمومنین کی ان نصیحتوں کو عملی جامہ پہنایا اور عراق چھوڑ کر قرب و جوار کے علاقوں میں جا کر آباد ہوجانے والے زمینداروں سے کہا کہ اگر دوبارہ عراق میں آباد ہونا چاہتے ہو تو ہماری طرف سے اجازت ہے، تم ہمیں جزیہ دو گے اور ہم تمہارا ذمہ لیں گے۔ * اس موقع پر مسلمانوں کی طرف سے ذمیوں کے لیے دل جوئی اور رحمت وشفقت کی انوکھی مثال بھی ہمارے سامنے نظر آتی ہے۔ مسلمانوں کے اس حسن سلوک اور کریمانہ برتاؤ نے ان عہد شکن ذمیوں کو اسلام اور مسلمانوں کا گرویدہ بنا دیا اور پھر مختلف مرحلوں میں وہ سب کے سب اسلام لے آئے اور مخلص مسلمان
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۴۱۰۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۰/۴۸۵۔