کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 657
کی مکھی کی آواز کی طرح قرآن کی تلاوت کرتے تھے، وہ بڑے ہی باعظمت اور بلند رتبہ انسان تھے، ان میں سے جنہوں نے راہ حق میں اپنی جانیں قربان کی ہیں زندہ بچ جانے والوں پر انہیں صرف اس لیے فضیلت ہے کہ یہ لوگ شہید نہ ہو سکے کہ شہادت ان کے حق میں مقدر نہ تھی۔‘‘[1] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے اس خط سے عبرت وموعظت کی چند باتیں معلوم ہوتی ہیں، مثلاً: : سعد رضی اللہ عنہ ، اللہ تعالیٰ کی عظمت ووحدانیت کی لازوال قوت سے آراستہ تھے۔ ذاتی اعتماد اور جسمانی قوت پر نازاں نہ تھے، وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں نے اگرچہ پریشان کن جنگ کی مصیبتیں مول لی ہیں اور عظیم ترین قربانیاں دی ہیں، پھر بھی دشمن کی شکست ان کی قوت سے نہیں بلکہ اللہ کی توفیق و مدد سے ہوئی ہے۔ : دشمن کی کثیر فوجی تعداد اور زبردست جنگی قوت کو باقی رکھنا یا مٹا دینا انسان کے بس میں نہیں، بلکہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی قدرت واختیار میں ہے۔ اللہ ہی نے دشمن کو اس کی فوجی وجنگی تیاریوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ دیا اور اس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا دیا۔ انسان تو فقط ایک واسطہ ہوتا ہے جس کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نفع ونقصان کو بطور عبرت پیش کرتا ہے۔ اللہ ہی وہ ذاتہے جو مصائب کو دور کرتی ہے اور فوائد سے بندوں کو نوازتی ہے۔ یہ ہے سعد رضی اللہ عنہ کی توحید فہمی کا مثالی نمونہ جسے انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے مجاہدین کے ساتھ خوب خوب نکھارا۔ : ہم دیکھ رہے ہیں کہ سعد رضی اللہ عنہ اپنے خط میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کے ساتھ رہنے والے تابعین رحمہم اللہ کے کمال عبادت وشجاعت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ رات میں اللہ کے عبادت گزار ہوتے ہیں، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے ایسے ہی گنگناتے ہیں جیسے کہ شہد کی مکھی، وہ تھکتے نہیں اور نہ اکتاتے ہیں۔ وہ دن میں میدان جنگ کے شہ سوار ہوتے ہیں، پیش قدمی اور ثابت قدمی میں شیر وغیرہ بھی ان کے مقام کو نہیں پہنچ سکتا۔[2] : سیّدناعمر رضی اللہ عنہ صبح سے لے کر دوپہر تک مدینہ آنے والے ہر راہ گیر سے قادسیہ والوں کی خبر پوچھتے، پھر اپنے گھر واپس آجاتے۔ ایک دن جب مژدہ فتح سنانے والے سے ملاقات ہوئی تو آپ نے اس سے پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟ اس نے بتایا کہ قادسیہ سے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: اے اللہ کے بندے! بتاؤ کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللہ نے دشمن کو شکست دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ جلدی جلدی چل رہے ہیں اور اس سے حالات پوچھ رہے ہیں اور وہ اپنی اونٹنی پر سوار ہے، نہیں جانتا کہ میرے ساتھ چلنے والے ہی امیرالمومنین عمر بن خطاب ہیں۔ جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے تو لوگوں نے آپ کو امیرالمومنین کہہ کر سلام کہا۔ مژدہ نواز سہم گیا اور کہنے لگا: امیرالمومنین! اللہ آپ پر رحم فرمائے، آپ نے کیوں نہ بتایا کہ میں
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۸۸۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۴۷۹۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۸۹۔