کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 654
کی دعائیں کرتے رہے۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ سعد رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات شخصیتوں میں سے ایک تھے۔[1] ۴: یوم القادسیہ: مسلمانوں نے جنگ کرتے ہوئے معرکہ کے چوتھے دن صبح کی۔ قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنی فوج کے پاس گئے اور کہا: فیصلہ کن جنگ ابھی ایک گھنٹے بعد شروع ہونے والی ہے۔ ذرا صبر سے کام لو پھر حملہ کرو، صبر کرنے سے الٰہی مدد آئے گی چنانچہ انہوں نے اپنی بے تابی پر صبر کو ترجیح دی۔ پھر سرداران قبائل قعقاع رضی اللہ عنہ کے پاس جمع ہوئے اور رستم کے سامنے ڈٹ گئے اور جو فوجی اس کے ساتھ تھے صبح تک ان سے گھمسان کی لڑائی لڑی۔ جب تمام قبیلے کے فوجیوں نے یہ منظر دیکھا تو قیس بن عبد یغوث، اشعث بن قیس، عمرو بن معدیکرب، ابن ذی السہمین خثعمی اور ابن ذی البردین ہلالی جیسے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: فارسی فوج تم سے زیادہ موت پر جری نہ ہونے پائے، نہ دنیا بے زاری میں تم سے آگے نکلنے پائے۔ قبیلہ ربیعہ میں کچھ لوگ اٹھے اور کہا: گزشتہ معرکوں سے تمہیں بخوبی اندازہ ہے کہ تم لوگ کس قدر ان سے زیادہ موت پر جری ہو، پس آج کون سی چیز ہے جو تمہیں سابقہ جرأت مندی کے مقابلے ہیچ کر دے۔[2] اس طرح قعقاع رضی اللہ عنہ اپنی شان دار تاریخ میں ان عمدہ و قابل رشک کارناموں کے نقوش تحریر کرتے رہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں بے نظیر بہادری، درست رائے اور ایمانی قوت سے نوازا اور انہوں نے یہ تمام خداداد صلاحیتیں اسلام اور مسلمانوں کے لیے وقف کر دی تھیں۔ اس معرکہ میں آپ کی آمد فتح کی علامت بن گئی۔ قعقاع رضی اللہ عنہ بخوبی اندازہ لگا چکے تھے کہ مسلسل ایک دن اور رات جنگ کرنے سے دشمن کے صبر و ثبات کی تمام قوتیں جواب دے جائیں گی، جب کہ اس سے پہلے بھی دو دن معمولی راحت کے ساتھ وہ برابر لڑائی لڑ چکے ہیں۔ آپ نے اپنے طویل تجربہ اور بالغ نظری سے اندازہ کر لیا تھا کہ اس طویل جانفشانی کے بعد بھی جو لوگ میدان میں ڈٹے رہے انہی کے ہاتھوں معرکہ اپنے انجام کو پہنچے گا۔ قعقاع رضی اللہ عنہ نے خود اپنے بہادر ساتھیوں کو لے کر دشمن کے قلب پر زبردست وار کیا، جس سے فارسی فوج کے قلب میں شگاف پڑ گیا اور ظہر کا وقت ہوتے ہوتے مسلم مجاہدین رستم تک پہنچنے کے قریب ہوگئے۔ ٹھیک اسی موقع پر اللہ تعالیٰ کی مدد نازل ہوئی اور اپنے پاک باز بندوں کی مدد کے لیے الٰہی لشکر بھیجا، یعنی طوفان کی شکل میں تیز آندھی آئی اور رستم کے سائبان کو اڑا کر دریائے عتیق میں پھینک دیا اور گردوغبار نے فارسی فوج کو اندھا کر دیا اور ان کی تمام دفاعی تدبیریں بے کار ہوگئیں۔[3] الف: فارسی فوج کے کمانڈر جنرل رستم کا قتل: قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ آگے بڑھے اور رستم کے تخت پر قابض ہوگئے، گردوغبار کی
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۸۶۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۸۶۔