کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 651
’’مضر حی بن یعمر نے میری قوم کے لوگوں کو اکسایا تو میری قوم نے بڑی بڑی فوجوں کو ہلاک کرنے میں بہت شان دار کارنامہ انجام دیا۔‘‘ وما خام عنہا یوم سارت جموعنا لأہل قدیس یمنعون الموالیا ’’جس دن ہمارا لشکر چھوٹے سے قادسیہ والوں سے مقابلہ کے لیے چلا اور وہ لوگ غلاموں کو اپنے یہاں آنے سے روک رہے تھے، اس دن ہماری قوم نے بزدلی نہیں دکھائی۔‘‘ فان کنت قاتلت العدو فللتہ فانی لا لقی فی الحروب الدواہیا ’’پس اگر میں نے دشمن سے جنگ کی تو اسے تلوار سے کاٹ ڈالوں گا، کیونکہ میں جنگوں میں سخت مصیبت نازل کرنے والا ہوں۔‘‘ فیولًا اراہا کالبیوت مغیرۃ اسمل اعیانا لہا وماقیا[1] ’’بھاری بھرکم ہاتھیوں کو میں حملہ آور ہوتے دیکھ رہا ہوں، میں ان کی آنکھوں اور پتلیوں میں لوہے کی سلائی ڈال دوں گا۔‘‘ اور ایک دوسرے مجاہد نے یہ اشعار پڑھے: أنا ابن حرب ومعی مخراقی أضربہم بصارم رقراق ’’میں جنگ جو ہوں اور میرے ساتھ میرا تجربہ ہے، میں ان دشمنوں کو تیغ براں سے ماروں گا۔‘‘ إذ اکرہ الموت أبو إسحاق وجاشت النفس علی التراقی ’’جب کہ ابو اسحاق موت سے نفرت کرے گا اور روح حلق تک پہنچ رہی ہوگی۔‘‘ س: لیلۃ الہریر: چوتھے دن کے آغاز یعنی ’’لیلۃ الہریر‘‘ میں پھر جنگ شروع ہوئی، آج کی رات فارسیوں نے لڑائی کا انداز بالکل بدل دیا تھا، جب رستم نے دیکھا کہ اس کی فوج مطاردت میں مسلمان شہ سواروں کا مقابلہ نہیں کر سکتی، بلکہ اس کے قریب بھی جانے کے لائق نہیں ہے تو اس نے پورا ارادہ کرلیا کہ پورے لشکر کو لے کر ایک ساتھ جنگ لڑی
[1] تاریخ الطبری: ۴؍۳۷۸۔ [2] تاریخ الطبری: ۴؍۳۸۲۔ [3] تاریخ الطبری: ۴؍۳۷۸۔