کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 639
بیرزان اور بندوان میدان میں آئے۔ ادھر سے دو کو اترتے دیکھ کر حارث بن ظبیان بن حارث، بنو تمیم اللات میں سے، قعقاع رضی اللہ عنہ کے ساتھ جا ملے۔ قعقاع رضی اللہ عنہ نے بیرزان سے مقابلہ کیا اور اسے قتل کر دیا اور ابن ظبیان نے بندوان سے مقابلہ کیا، بندوان بھی فارس کے اہم بہادروں میں شمار ہوتا تھا اسے ابن ظبیان نے قتل کیا۔ اس طرح قعقاع رضی اللہ عنہ نے صبح ہی صبح فارس کے پانچ عظیم سپہ سالاروں میں سے دو کا کام تمام کر دیا۔ بے شک اہل فارس کے لیے یہ ایک بھاری نقصان تھا۔ اس سے وہ سخت حیرت و اضطراب میں پڑ گئے اور اس طرح شکستہ دل ہوئے کہ فارسی فوج کی ہمت پست ہوگئی، پھر دونوں طرف سے شہ سواروں کی باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی اور قعقاع رضی اللہ عنہ مسلمانوں سے کہنے لگے: اے مسلمانو! دشمن کو تلوار سے کاٹو، وہ کاٹنے ہی کے لیے بنائے گئے ہیں۔ تمام مسلم مجاہدین بھی ایک دوسرے سے یہی کہتے رہے اور شام تک ان میں اسی طرح گھمسان کی جنگ جاری رہی۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس دن قعقاع رضی اللہ عنہ نے تیس کامیاب حملے کیے، جونہی دشمن کی کوئی ٹولی نظر آتی اس پر زبردست وار کرتے اور اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتے اور یہ اشعار پڑھتے: أزعجہم عمدًا بہا إز عاجًا أطعن طعنا صائبًا تجاجًا ’’اس جنگ میں میں انہیں اچھی طرح لتاڑوں گا اور بالکل صحیح نشانے سے نیزوں کی بارش کروں گا۔‘‘ دشمن کا سب سے آخری شخص بزر جمہر ہمذانی قتل کیا گیا، اس کے بارے میں قعقاع رضی اللہ عنہ نے کہا: حبوتہ جیاشۃً بالنفس ہدارۃ مثل شعاع الشمس ’’میں نے پورے جوش وخروش سے اسے زمین پر چت کر دیا اور سورج کی کرنوں کی طرح اس کے خون کو زمین پر منتشر کر دیا۔‘‘ فی یوم أغواث فلیل الفرس أنخس فی القوم أشد النخس ’’یوم اغواث کے موقع پر جب کہ فارسیوں کی رات قوم میں تباہی مچانے والی تھی۔‘‘ ب: علباء بن جحش عجلی کی انتڑی معرکہ میں پیٹ سے باہر آگئی: بکر بن وائل کی صفوں کے سامنے فارس کا ایک فوجی آکھڑا ہوا اور دعوت مبارزت دینے لگا، علباء بن جحش مقابلہ کے لیے آگے بڑھا۔ علباء نے اس کے سینے میں دائیں طرف نیزہ مارا جس سے اس کا پھیپھڑا چاک ہوگیا اور دشمن نے بھی پلٹ کر آپ کے پیٹ میں کاری ضرب لگائی جس سے آپ کی انتڑیاں باہر آگئیں اور پھر دونوں
[1] یہ فارسی فوج کا ایک سورما لیڈر مانا جاتا تھا، اس نے معرکہ جسر میں مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا تھا۔ [2] قعقاع رضی اللہ عنہ کے پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ معرکہ جسر میں موجود نہ تھے بلکہ اس وقت شام کے محاذ پر تھے۔ [3] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۴۵۵۔