کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 634
نے کہا: اے ہمارے قبیلہ کے لوگو! سعد نے کسی اعتماد کی بنا پر تمہیں مدد کے لیے پکارا ہے، کیونکہ جس کا نام لے کر پکارا جائے وہ با اعتماد ہوتا ہے اگر وہ مدد کے لیے تم سے زیادہ کسی کو موزوں سمجھتے تو انہیں کو پکارتے۔ خوب شدت سے حملہ کرو اور بپھرے ہوئے شیروں کی طرح دشمن پر ٹوٹ پڑو، تم بنو اسد اس لیے کہے جاتے ہو کہ اسد (شیر) جیسا کر دکھاؤ۔ ڈٹ جاؤ، ہٹو نہیں، پلٹ پلٹ کر حملہ کرو، بھاگو نہیں۔ ربیعہ کی جنگی چالوں کا کیا کہنا! کیا ہی عمدہ کارنامہ انجام دیتے ہیں اور کیا ہی منہ توڑ جواب دیتے ہیں، کیا ہے کوئی جو دشمن کی صفوں میں گھس جائے؟ اپنی جنگی مہارت کے جوہر دکھاؤ، اللہ تمہاری مدد فرمائے، اللہ کا نام لے کر ان پر زبردست وار کرو۔[1] طلیحہ کے اس خطاب سے ان کی قوم بے حد متاثر ہوئی اور جانبازی وپامردی کا ثبوت دیتے ہوئے تنہا معرکہ کو اپنے سر لے لیا اور پھر بعد میں بنو تمیم بھی ان کی مدد کو آگے آئے اور بالآخر پانچ سو (۵۰۰) شہداء کو اللہ کے حوالے کیا۔[2]بنو اسد کی شجاعت دیکھ کر دیگر قبائل کے مجاہدین بہت متاثر ہوئے، اشعث بن قیس کندی اٹھے اور کہا: اے کندہ کے لوگو! بنو اسد کے کمال کا کیا کہنا! کیا تم نے دیکھا وہ کتنے حیرت انگیز طریقے سے وار کرتے ہیں؟ اور کتنی تیزی سے کاٹتے پیٹتے آگے نکل جاتے ہیں؟ یہ سننا تھا کہ کندہ کے مجاہدین دفاعی پوزیشن چھوڑ کر حملے کی پوزیشن میں آگئے اور اپنے سامنے کی فارسی فوج کو پیچھے دھکیل دیا۔[3] د: یوم ارماث کے موقع پر عمرو بن شناس اسدی کے اشعار: لقد علمت بنو أسد بأنا أو لو الأحلام إذ ذکروا الحلوما ’’بنو اسد کے لوگ جب عقل مندوں کا تذکرہ کریں گے تو مانیں گے کہ ہم بھی عقل مند تھے۔‘‘ وأنا النازلون بکل ثغر ولو لم نلفہ إلاہشیما ’’اور ہم ہر محاذ پر جانے والے ہیں اگرچہ ہمیں وہاں سوکھی گھاس ہی کیوں نہ ملے۔‘‘ تری فینا الجیاد مسومات مع الأبطال یعلکن الشکیما ’’قبیلہ دیکھتا ہے کہ عمدہ فوجی گھوڑے بہادروں کو پشت پر بٹھائے لگام کو چبا رہے ہیں۔‘‘ تری فینا الجیاد مجلجات تنہنہ عن فوارسہا الخصوما
[1] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۵۔