کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 632
کی اہمیت گھٹ جاتی ہے اور اس کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں۔ ابتدائی دور کے مسلمان اس فن میں ہمیشہ دوسروں پر غالب رہے اور اس کے ظاہری و معنوی اثرات سے فائدہ اٹھاتے رہے۔[1] ابھی لوگ چوتھی تکبیر کا انتظار کر ہی رہے تھے کہ بنو نہد قیس بن حذیم بن جرثومہ کے پیدل فوجیوں پر جو ذمہ دار مقرر تھے، وہ جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: اے بنو نہد! جوانمردی کے جوہر دکھاؤ اور خود کو اسم بامسمّٰی ثابت کرو۔ خالد بن عرفطہ رضی اللہ عنہ نے ان کی جلدی کو دیکھ کر کہا: خبردار! خاموش رہو ورنہ تمہاری جگہ دوسرے کو ذمہ دار بنا دوں گا۔ چنانچہ وہ خاموش ہوگئے۔[2] رستم اپنی فوج کے ایک حصہ کو حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے: جب رستم نے دیکھا کہ جنگ کے ابتدائی دونوں مرحلوں یعنی مبارزت و مطاردت میں مسلمان غالب آگئے ہیں تو انہیں اگلا موقع بالکل نہ دیا کہ مسلمان اپنے قائد کی ہدایت کے مطابق مبارزت و مطاردت (پیچھے دھکیلنے) میں مزید کامیاب ہو سکیں، بلکہ فوراً اپنے لشکر کے ایک فوجی حصے کو مسلمانوں کے ایک فوجی حصہ پر جس میں قبیلہ بجیلہ کے لوگ تھے عام حملہ کرنے کا حکم دے دیا، حملہ اتنا زبردست تھا کہ دیکھنے کے قابل، فارسی فوج نے اسلامی فوج کے ایک چھوٹے سے حصے کو شکست دینے کے لیے اپنی نصف عسکری قوت جھونک دی تھی۔ ان کا اتنا زبردست فوجی ہجوم اس بات کی دلیل ہے کہ وہ لوگ مبارزت و مطاردت میں شکست فاش پانے کے بعد اس جنگی نوعیت کو جڑ سے کاٹ دینے کی جان توڑ کوشش میں تھے۔ بہرحال انہوں نے اسلامی لشکر کے ایک حصے پر تیرہ (۱۳) ہاتھیوں کے ساتھ زبردست حملہ کیا اور اپنی جنگی تنظیم کے مطابق پیادہ اور شہسواروں کی چار ہزار فوج پر ایک ہاتھی پیش پیش رکھا۔ وہ دیو پیکر ہاتھی اسلامی فوج کی صفوں میں گھس گئے اور انہیں منتشر کر دیا۔ اس حملے کا خاص نشانہ قبیلہ بجیلہ سے تعلق رکھنے والے فوجی تھے، حملہ خاصا خطرناک تھا تاہم قبیلہ کی پیدل فوج نے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ الف: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بنو اسد کو بنو بجیلہ کی مدد کا حکم دیتے ہیں: بجیلہ کے فوجی مجاہدین جس صبر آزما مرحلے سے گزر رہے تھے سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ اس کا عینی مشاہدہ کر رہے تھے، آپ نے بنو اسد کو پیغام بھیجا کہ ’’بجیلہ اور ان کے ساتھ لڑنے والی فوج کی طرف سے دفاع کرو اور دشمن کو بھگاؤ۔‘‘ چنانچہ یہ پیغام سنتے ہی طلیحہ بن خویلد، حمال بن مالک، غالب بن عبداللہ اور ربیل بن عمرو اپنے اپنے فوجی حصے کو لے کر آگے بڑھے، معرور بن سوید اور شقیق کا بیان ہے کہ: اللہ کی قسم!انہوں نے بڑا زبردست حملہ کیا، نیزہ بازی اور تلوار زنی کے حیرت انگیز جوہر دکھائے اور ہاتھیوں کو آگے بڑھنے سے روک دیا، جب ہاتھی پیچھے ہٹ گئے تو فارسی فوج سے ایک بہادر آگے بڑھا اور طلیحہ کو دعوت مبارزت دی، طلیحہ نے دیکھتے ہی دیکھتے
[1] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۰۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۱۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۲۔ [4] تاریخ الطبری: ۴/۳۶۲۔