کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 624
حذیفہ بن محصن الغلفانی رضی اللہ عنہ [1]کو بھیجا۔ چنانچہ انہوں نے بھی رستم سے گفتگو کی اور بالکل ربعی رضی اللہ عنہ جیسی بے باکی وجواب دہی کا مظاہرہ کیا۔ دونوں کے یکساں طرز عمل پر ہمیں کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کیونکہ دونوں نے ایک ہی سرچشمہ اسلام سے روحانیت کا جام پیا تھا۔ رستم نے ان سے کہا: کل جو آیا تھا آج وہی کیوں نہیں آیا؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: امیر سختی اور خوشحالی دونوں حالتوں میں ہمارے درمیان عدل وانصاف کرتا ہے، آج میری باری ہے۔ رستم نے پوچھا: تاخیر کا وعدہ کب تک ہے؟ حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: گزشتہ کل سے تین دن تک۔ اور جب تیسرا دن ہوا تو رستم نے سعد رضی اللہ عنہ سے پھر نمائندہ طلب کیا، اس مرتبہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نمائندہ بنا کر بھیجے گئے۔ آپ وہاں پہنچے تو سیدھے رستم کے تخت پر اس کے ساتھ جا بیٹھے۔ تمام افسران و درباری یہ گستاخی دیکھ کر مغیرہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھے اور انہیں کھینچنے لگے۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہارے گھٹیا پن کی خبریں میں پہلے ہی سنتا تھا، تم سے زیادہ بے وقوف کسی قوم کو نہیں دیکھا، ہم عربوں کی ایسی جماعت ہیں کہ اس کا بعض فرد بعض کو غلام نہیں بناتا، مگر یہ کہ کوئی اپنے ساتھی ہی سے جنگ چھیڑ دے۔ میں سوچتا تھا کہ جس طرح ہم آپس میں ایک دوسرے کے بھائی اور غم خوار ہوتے ہیں اسی طرح تم بھی ہوگے۔ میرے ساتھ تمہیں یہ بدسلوکی کرنے سے پہلے ہی بتا دینا چاہیے تھا کہ تم اپنے ہی بعض لوگوں کو اپنا رب مانتے ہو اور باہمی مساوات وہمدردی کا سبق ہمیں منظور نہیں، سنو! کوئی ملک اونچ نیچ کی اس تفریق اور سطحی حلقوں پر باقی نہیں رہ سکتا۔ یہ سن کر تمام لوگوں نے کہا: واللہ عربی نے سچ کہا اور جاگیرداروں نے کہا: اس نے ہمیں ایسی بات سنا کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ تبھی تو ہمارے غلام اس کی طرف کھینچ کھینچ کر جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے آبا واجداد کا برا کرے وہ لوگ ہمیشہ عرب مسلمانوں اور ان کے دین کو ذلیل سمجھتے تھے، پھر رستم نے اپنی فوج سے خطاب کیا، نہایت ذلت وحقارت آمیز لہجہ میں عربوں کا ذکر کیا اور اہل فارس کی شوکت و قوت کو خوب سراہا، پھر عربوں کی فاقہ مستی اور زمانہ جاہلیت میں ان کی بدحالی کا تذکرہ کیا۔[2] مغیرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہماری فاقہ مستی، تنگ زندگی اور باہمی لڑائی کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ بالکل صحیح ہے، ہمیں اس کا انکار نہیں ہے۔ دنیا کے حالات میں استقرار نہیں، تنگی کے بعد خوشحالی آتی ہے۔ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا اگر تم شکریہ ادا کرو تو اس کے مقابلے میں تمہاری شکر گزاری کم ہوگی۔ شکر گزاری کی قلت ہی نے تمہاری یہ حالت بنائی ہے۔ اللہ نے ہمارے درمیان رسول مبعوث کیا، پھر مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اپنے ما قبل دونوں نمائندوں کی طرح اس سے ہم کلام ہوئے اور یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ یا تو اسلام لے آؤ یا جزیہ ادا کرو، یا جنگ کے لیے تیار رہو۔[3] مغیرہ رضی اللہ عنہ کے چلے جانے کے بعد رستم نے اپنے فوجی افسروں اور مشیروں کے
[1] الکامل فی التاریخ: ۲/ ۱۰۶۔