کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 623
کچھ تمہارے حکم کے مطابق کرتا، لیکن تم لوگوں نے مجھے بلایا ہے۔ (اگر میرا اس طرح آنا منظور ہے تو ٹھیک ورنہ واپس جاتا ہوں) پھر اپنا نیزہ جس کی انی نیچے تھی فرش دیباسے ٹیکتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدموں سے آگے بڑھے، یہاں تک کہ جدھر سے گزرے پر تکلف فرش کٹ پھٹ کر بے کار ہوگئے اور رستم کے پاس پہنچ کر زمین پر بیٹھ گئے اور فرش پر اس طرح نیزہ مارا کہ وہ فرش کو پھاڑ کر زمین میں دھنس گیا اور کہا: ہم تمہارے شاہی فرش پر نہیں بیٹھیں گے۔ رستم نے پوچھا: تم یہاں کس لیے آئے ہو؟ ربعی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یہاں ہم کو اللہ لایا ہے، اس نے ہم کو بھیجا ہے تاکہ وہ جسے ہدایت دینا چاہے ہم اسے بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف، دنیا کی تنگیوں سے نکال کر کشادگی کی طرف اور ادیان باطلہ کے جور و ظلم سے اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لائیں۔ اس نے اپنا دین دے کر ہمارے میں ایک رسول بھیجا کہ اسے ساری مخلوق تک پہنچائے۔ لہٰذا جو اس دین کو قبول کر لے گا ہم اس کی باتیں سنیں گے، اس کی حکومت اور زمین اسی کے حوالے کر کے واپس لوٹ جائیں گے اور جو انکار کرے گا اس سے اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک کہ اس پر غلبہ نہ پا لیں، یا شہادت پا کر جنت میں نہ چلے جائیں۔[1] رستم نے کہا: ہم نے تمہاری بات سن لی کیا تم جنگ میں کچھ تاخیر کر سکتے ہو تاکہ ہم مزید غور کر لیں؟ ربعی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ہاں ضرور! ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے سنت چھوڑی ہے کہ اپنے دشمن کو تین دن سے زیادہ مہلت نہ دیں، لہٰذا تین دن ہم انتظار کر سکتے ہیں۔ اپنے بارے میں اچھی طرح غور و فکر کر لو اور یاد رکھو کہ وقت گزر جانے کے بعد تین میں سے ایک اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، اسلام لے آؤ، ہم تم کو اور تمہاری حکومت کو چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے، یا جزیہ دو، اسے قبول کر لیں گے اور تم سے جنگ نہ کریں گے۔ بلکہ وقت ضرورت تمہاری مدد بھی کریں گے، اگر یہ سب نامنظور ہو تو پھر چوتھے دن اعلان جنگ ہے۔ مگر یہ کہ تم اس مہلت کی مدت میں اچانک لڑائی چھیڑ دو۔ میں اپنے تمام ساتھیوں کا نمائندہ ہوں۔ رستم نے پوچھا: کیا تم ہی مسلمانوں کے سردار ہو؟ ربعی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: نہیں، بلکہ تمام مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں ان میں ہر ایک دوسرے سے مربوط ہے، ان کا ایک ادنیٰ فرد جس بات پر معاہدہ کر لے گا ان کا سردار بھی اسے مانے گا۔ پھر ربعی رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے اور رستم نے اپنے اقرباء وساتھیوں سے مشورہ کیا اور کہا: کیا اس آدمی کی بات کی طرح کبھی تم نے کسی سے سنا تھا؟ ان مشیروں نے کہا اس نے تو آپ کی شان میں بڑی گستاخی کی ہے؟ رستم نے کہا: تمہارا ستیاناس ہو، میں اس کی بات، طرز گفتگو اور بے باکی پر حیرت مند ہوں، یقینا عرب ظاہری لباس کو کوئی وقعت نہیں دیتے، وہ اپنے حسب ونسب کی حفاظت کرتے ہیں۔ جب دوسرا دن ہوا تو پھر اس نے سعد رضی اللہ عنہ کے پاس پیغام بھیجا کہ اس شخص کو بھیجو۔ اس مرتبہ سعد رضی اللہ عنہ نے
[1] إتمام الوفاء سیرۃ الخلفاء، ص: ۵۷۔