کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 620
مالک تھا، نیز اس سے قبل انہیں اہل فارس کے ساتھ جنگی سابقہ پڑ چکا تھا۔ کچھ تو ایسے تھے جنہوں نے پچھلی جنگوں میں ان سے معرکہ آرائی کی تھی اور ان کی جنگی چالوں سے واقف تھے اور کچھ ایسے تھے جو زمانہ جاہلیت میں شاہان فارس کے پاس وفد کی شکل میں جا چکے تھے، جب کہ کچھ لوگ ایسے تھے جنہیں فارسی زبان آتی تھی۔ گویا سعد رضی اللہ عنہ نے انہی لوگوں کو وفد کے لیے اس لیے منتخب کیا تھا کہ ان کی صلاحیت و بہترین رائے کا فنی معائنہ، قوت وکمزوری کا طبی معائنہ اور لیاقت و جسامت کا جسمانی معائنہ پہلے ہو چکا تھا۔[1] یہ وفد اپنی وجاہت وسادگی کی وجہ سے شاہ فارس کے لیے شوق ملاقات اور جسامت و قوت کی وجہ سے خوف و دہشت کا باعث تھا اور یہ دونوں خوبیاں ان کے جسم، رعب، قوت اور ذہانت وعقل مندی میں صاف نمایاں تھیں۔[2] یہ مبارک وفد نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ کی قیادت میں آگے بڑھا اور کسریٰ کے دارالسلطنت مدائن پہنچا۔ یہ لوگ شاہ فارس یزدگرد کے پاس لائے گئے۔ اس نے اپنے ترجمان کے واسطہ سے وفد سے پوچھا: تم لوگ ہمارے ملک میں کیوں آئے ہو؟ ہم سے جنگ کرنا چاہتے ہو اور ہمارے پایہ تخت میں گھسنا چاہتے ہو؟ کیا تمہاری جرأت اس لیے ہوئی کہ ہم تم سے غافل ہو کر خانہ جنگی میں پھنس گئے؟ یہ سن کر نعمان بن مقرن رضی اللہ عنہ نے وفد کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا: ’’اللہ نے ہم پر رحم کیا، ہمارے پاس ایک ایسا رسول بھیجا جو خیر کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے، اللہ نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اس کی دعوت قبول کرنے پر ہم دنیا وآخرت کی بھلائیوں سے مالا مال ہوں گے۔ رسول نے اپنے قریب وبعید کے تمام قبائل و رشتہ داروں کو اسلام کی دعوت دی، پھر حکم دیا کہ ہم اس دعوت کو ان لوگوں کے سامنے بھی پیش کریں جو عربوں میں سے ہیں پھر بھی مخالفت کرتے ہیں۔ چنانچہ ہم نے ان سے اس کا آغاز کیا اور ان میں سے کچھ لوگ مجبور ہو کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، لیکن اس نعمت کو پا کر وہ بہت خوش ہوئے اور کچھ لوگوں نے خوشی خوشی اس کو قبول کیا، سو ان کی سعادت وشادمانی میں اضافہ ہوا۔ پس ہم سب عربوں نے اپنی آبائی عداوت اور زمانے کی تنگیوں پر اور اس رسول کی لائی ہوئی شریعت کی فضیلت وعظمت کو ترجیح دی۔ اس نے ہمیں حکم دیا کہ اپنے پڑوس میں بود و باش اختیار کرنے والی اقوام کو اسلام کا پیغام دیں، پس ہم انہیں انصاف کی دعوت دیتے ہیں اور تم کو بھی اپنے اسی دین کی دعوت دینے آئے ہیں۔ ہمارا دین ایسا ہے جو تمام اچھائیوں کو اچھا اور برائیوں کو برا کہتا ہے۔ اگر تم لوگ اسے ماننے سے انکار کرتے ہو تو اس کا انجام بد سے بدتر ہے۔ وہ یہ کہ جزیہ ادا کرو اور اگر اس کا بھی انکار ہے تو جنگ کے لیے تیار رہو، اگر تم ہمارے دین کو قبول کر لو گے تو ہم کتاب اللہ تمہارے پاس چھوڑ جائیں گے اور تمہیں اپنے فیصلے اس کتاب کے احکام کے مطابق کرنے ہوں گے۔ ہم واپس چلے جائیں گے تم سے اور تمہاری حکومت سے کوئی تعرض نہ کریں گے اور اگر تم جزیہ دینا پسند کرو گے تو ہم اسے بھی قبول کر لیں گے اور تمہاری حفاظت کریں گے، ورنہ تیسری صورت جنگ ہوگی۔‘‘
[1] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۳۸۱۔ [2] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۳۸۔ [3] الدعوۃ الإسلامیۃ فی عہد عمر بن الخطاب/ حسنی محمد ابراہیم۔ [4] الکامل فی التاریخ: ۲/۱۰۱۔