کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 619
کا مقصود امان دینا نہیں تھا لیکن دشمن نے اسے امان سمجھا اسے امان ہی پر محمول کیا جائے اور اسلامی فوج اس کی پابند ہوگی۔[1] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام شاہان فارس سے مناظرہ کے لیے وفد روانہ کرنے کا حکم: سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کے نام ایک خط میں لکھا: ’’دشمن کی تیاریوں سے بالکل پریشان اور خوفزدہ نہ ہونا، اللہ سے مدد طلب کرنا اور اسی پر بھروسا رکھنا۔ دشمن کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے تم ایسے لوگوں کو بھیجو جو فکر و نظر کے مالک، متحمل مزاج اور دلیر ہوں، اللہ اس دعوت کو دشمن کی ذلت اور ہماری کامیابی کا ذریعہ بنائے گا اور مجھے روزانہ خط لکھتے رہو۔‘‘ [2] یہ خط پا کر سعد رضی اللہ عنہ نے اہل علم، فکر ونظر کے مالک، متحمل مزاج دلیر لوگوں کا انتخاب شروع کر دیا اور جن اصحاب فکر و نظر، اہل اجتہاد اور اشراف و معزز لوگوں پر نظر انتخاب ٹھہری وہ یہ ہیں: (۱) نعمان بن مقرن مزنی رضی اللہ عنہ (۲) بسر بن ابی رہم جہنی رضی اللہ عنہ (۳) حملہ بن جویہ کنانی رضی اللہ عنہ (۴) حنظلہ بن ربیع تمیمی رضی اللہ عنہ (۵) فرات بن حیان عجلی رضی اللہ عنہ (۶) عدی بن سہیل رضی اللہ عنہ (۷) مغیرہ بن زرارہ بن نباش بن حبیب رضی اللہ عنہ ۔[3] اور جن بارعب، وجیہ اور ٹھوس جواب دینے والوں کو منتخب کیا وہ یہ تھے: (۱) عطارد بن حاجب تمیمی رضی اللہ عنہ (۲) اشعث بن قیس کندی رضی اللہ عنہ (۳) حارثہ بن حسان ذہلی رضی اللہ عنہ (۴) عاصم بن عمرو تمیمی رضی اللہ عنہ (۵) عمرو بن معدیکرب زبیدی رضی اللہ عنہ (۶) مغیرہ بن شعبہ ثقفی رضی اللہ عنہ (۷) مُعَنّی بن حارثہ شیبانی رضی اللہ عنہ ۔[4] یہ چودہ (۱۴) داعی تھے جنہیں سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے شاہ فارس یزدگرد کے پاس اسلام کی دعوت دینے کے لیے بھیجا تھا، جس طرح عمر رضی اللہ عنہ چاہتے تھے بالکل آپ کی منشا کے مطابق یہ لوگ اپنے قبیلوں کے سردار اور معزز ترین تھے۔ درحقیقت ان خوبیوں کے متحمل افراد کے انتخاب کی وجہ یہ تھی کہ یہ لوگ حکیمانہ انداز، نرم لب ولہجہ اور احسن طریقے سے جدال ومناظرہ کے ذریعہ سے یزدگرد اور اس کی فوج کو ایمان کی دعوت دے سکیں اور دونوں طرف سے انسانی خون نہ بہنے پائے۔ ان چنندہ لوگوں کا وفد نمائندگی کا مکمل حق ادا کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتا تھا، ساتھ ہی ساتھ قدوقامت، قوت و بہادری، رعب و دبدبہ اور بہترین رائے کا
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۳۸۔ [2] البدایۃ والنہایۃ: ۷/۳۸۔ [3] الفن العسکری الإسلامی: ص ۲۵۳۔ [4] إتمام الوفاء فی سیرۃ الخلفاء: ص ۷۳۔