کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 618
ہمارے مفاد میں ہو یا نقصان میں، بہرحال راضی ہیں۔ ہم اللہ سے بہتر فیصلہ اور عافیت و سلامتی کے طلب گار ہیں۔‘‘[1] عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خط پڑھ کر جواب میں تحریر کیا کہ: ’’تمہارا خط موصول ہوا، حالات معلوم ہوئے، جہاں ہو وہیں ٹھہرے رہو، حتیٰ کہ دشمن تم پر حملہ آور ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس جنگ کے بعد اور بھی لڑائیاں ہوں گی اگر اللہ کے فضل سے دشمن پسپا ہو تو اس کا تعاقب کرنا اور اس کے پایہ تخت مدائن میں گھس جانا، اللہ نے چاہا تو مدائن تباہ ہو گا۔‘‘ [2] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے خط سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے صحیح فیصلہ لیا، وہ یہ کہ انہیں اپنی جگہ پر ٹھہر جانے اور وہاں سے آگے نہ بڑھنے کا حکم فرمایا۔ جنگ میں دشمن سے پیش قدمی کرنے سے سعد رضی اللہ عنہ کو روک دیا اور حکم دیا کہ فتح و نصرت کو مفید تر بنانے کی کوشش کریں اور دشمن کا مدائن تک تعاقب کریں اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا۔[3] فتح وغلبہ کے لیے مادی وسائل واسباب کو جمع کرنے کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ فتح کے معنوی پہلوؤں سے غافل نہ ہوئے، دشمن کے گھر اور اس کی شوکت وسلطنت کی حدود میں گھس کر اس پر نفسیاتی جنگ کا بگل بجا دیا اور سعد رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ: ’’مجھے الہام ہوا ہے کہ دشمن کو تمہارے مقابلہ میں شکست ہوگی، پس شک وشبہ کو دل سے نکال دو اور خشیت الٰہی کو اس کی جگہ دو، تمہارا کوئی فوجی اگر مذاق میں بھی کسی فارسی کو امان دے دے یا اشارہ کرے جس کا مطلب امان ہو، یا زبان سے ایسا لفظ نکالے جسے فارسی اگرچہ نہ سمجھتا ہو لیکن اس کے ملک میں امان کی علامت سمجھا جاتا ہو تو اس دیے ہوئے امان کی پاس داری کرو اور وفاداری کا ثبوت دو کیونکہ وفاداری، بے وفائی کے موقع پر بھی اچھا اثر دکھاتی ہے، لیکن غداری اگر غلطی سے بھی کی جائے تو اس کا انجام ہلاکت ہے۔ اس سے تمہاری طاقت کمزور ہوگی اور دشمن کی طاقت بڑھے گی۔‘‘ [4] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ ہمہ وقت اپنے جذبات واحساسات کے ساتھ اسلامی لشکر کے ساتھ ہوتے، ہمیشہ ان کی فکر میں ڈوبے رہتے۔ اگر ان کی خبریں آنے میں تاخیر ہو جاتی تو غم سے نڈھال ہو جاتے اور پل پل کی خبریں سننے کے لیے بے چین و بے قرار رہتے۔ گویا یہ الہام الٰہی عمر رضی اللہ عنہ کے غم کے بوجھ کو ہلکا کرنے اور مسلمانوں کو ثابت قدمی اور دل جمعی کی دعوت دینے آیا تھا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو فتح ونصرت کے معنوی اسباب اختیار کرنے کی نصیحت کی، انہیں کلمہ ’’ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ۔‘‘کی عظمت کا احساس دلایا، قول میں صداقت اور عہد وپیمان میں وفاداری کی تعلیم دی اگرچہ مسلمان کا کوئی ادنیٰ فرد ہی دشمن کو امان دیا ہو، بہرحال اسے امان ملے گی اگرچہ سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو، مسلمان نے کوئی کلمہ زبان سے کہا یا کوئی اشارہ کیا جس سے اس
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۳۱۵۔ [2] التاریخ الإسلامی: ۱۰/ ۳۷۹۔