کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 613
: پہلا اصول:… فوج کو ہمیشہ تقویٰ اور اطاعت الٰہی کا حکم دیا جائے کیونکہ مسلمانوں کا وہی پہلا ہتھیار ہے۔ اسے خبردار کیا جائے کہ تمہارا پہلا و بڑا دشمن معاصی ہیں، دشمنان کفار کا دوسرا درجہ ہے۔ اس بات کی طرف توجہ دلائی جائے کہ اسلامی لشکر کے ہر ہر سپاہی پر ہمہ وقت دقیق نظر رکھنے والے فرشتے نگران مقرر ہیں، اسے گناہوں سے شرم کھانے کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، کیونکہ ایک مجاہد کو یہ بات قطعاً زیب نہیں دیتی کہ وہ اللہ کے راستے میں میدان جہاد میں ہو اور گناہ بھی کرتا رہے، یہ انتہائی غیر معقول بات ہے۔ اسے تاکید کی جائے کہ اسلامی لشکر کا غلط روش کے جواز کے لیے دشمن کی بدکاریوں کو معیار بنانا غلط ہے اور یہ ذہن نشین کرایا جائے کہ مدد الٰہی کی ہمہ وقت اسے ضرورت ہے۔ : دوسرا اصول:… قومی وملکی تعلقات میں کسی بھی خطرہ کے وقت فریق اوّل کی رعایت ہی محل بحث ہونی چاہیے۔ ذمیوںکے جان ومال کا احترام اور اس کی حفاظت کے اسباب تلاش کرنا چاہئیں۔ اسلام کی بے داغ تصویر کو ان تمام چیزوں سے بچایا جائے جو مسلمانوں اور غیر مسلمین کے درمیان خوشگوار تعلقات کی کامیابی کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بنیں، مثلاً ایسا نہ ہو کہ کوئی مسلمان جذبات میں آکر ان سے نامناسب سلوک کرنے لگے۔ اسی اصول کے تقاضوں کو پورا کرنے کی رغبت دلاتے ہوئے سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر کو حکم دیا تھا کہ فوج کی قوت کے اسباب کو ضائع نہ ہونے دیں اور اسے دشمن کی سر زمین میں اس حالت میں اتاریں کہ وہ بالکل تازہ دم ہو۔ آپ کا فرمان تھا: ’’کوچ کے دوران فوج سے نرمی سے پیش آؤ اور انہیں اتنا نہ چلاؤ کہ تھک جائیں، پر سہولت اور پر آرام جگہ ٹھہرنے سے انہیں نہ روکو تاکہ وہ جب دشمن سے مقابل ہوں تو ان کی توانائی بحال ہو، فوج سستا کر تازہ دم رہے اور اپنے ہتھیار و سامان درست کر سکے۔‘‘ افراد اور جنگی اسلحہ اور سازوسامان کی حفاظت کے اسباب و تدابیر اپنانے کی تاکید کے بعد آگاہ کیا کہ امراض کے اسباب سے پرہیز کرنا علاج سے بہتر ہے۔ اسلامی لشکر کا سب سے کارگر ہتھیار یہ ہے کہ کردار وعمل سے اسلام کی خوبیاں ثابت کی جائیں۔ قول وعمل میں کوئی تضاد نہ ہو۔ آپ نے احتیاطی تدبیر اختیار کرتے ہوئے حکم دیا کہ: ’’جس بستی کے لوگوں سے تمہارا معاہدہ ہے یا وہ جزیہ ادا کرتے ہیں ان سے دور پڑاؤ ڈالو، مبادا ایسا کوئی ناخوشگوار حادثہ پیش آجائے جس سے بہتر تعلقات کی استواری میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے۔‘‘ اور کہا کہ ان کی بستیوں میں صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دو جن کی دیانت داری پر تمہیں اعتماد ہو۔ اہل ذمہ کے جان ومال کا احترام کرو اور وفاداری کا ثبوت دو۔ : تیسرا اصول:… باہمی تعلقات کی استواری میں فریق ثانی کی شرکت کی جو نوعیت ہو اسی کے مطابق معاملات و گفتگو کے اسلوب میں تنوع ہونا چاہیے۔ جن کے ساتھ مصالحت ہو چکی ہو ان پر نرمی کی جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر کو نصیحت کرتے ہوئے حکم دیا تھا
[1] الفاروق عمر بن خطاب: محمد رشید رضا، ص ۱۱۹،۱۲۰۔ [2] التاریخ الإسلامی: ص۱۰/۳۷۴۔