کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 610
کو اللہ تعالیٰ ان پر غالب کر دے تو آگے بڑھنا مشکل نہیں اور اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو عرب اپنے راستوں سے زیادہ واقف اور اپنی سر زمین میں زیادہ جری ہوں گے اور ان کے لیے پلٹ کر حملہ کرنا آسان ہو گا۔[1] ہم ذرا یہاں ٹھہریں اور دیکھیں کہ مثنی رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری لمحات کی باتیں خلیفہ اوّل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری لمحات کی باتوں سے کتنے قریب تر ہیں۔ دونوں ہی اس دنیا کو الوداع کہہ رہے ہیں اور اسلامی فتوحات کی فکر دامن گیر ہے، ان کی کامیابی کے لیے وصیتیں کرتے ہیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جاں بلب ہیں اور اپنے خلیفہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو وصیت کرتے ہیں کہ فتح عراق کے لیے مسلمانوں کے جوش وجذبات کو ابھارو اور مثنی رضی اللہ عنہ بھی جاں بلب ہیں اور جنگ عراق کے جدید قائد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو وراثت میں اہل فارس کے خلاف اپنی جنگی تجربات کا پیغام دیتے ہیں۔ اس دنیا کو الوداع کہنے والے ہیں اور امت کی فکر اور فتوحات میں کامیابی کی تدبیر دامن گیر ہے، پھر سعد رضی اللہ عنہ کو انہی چیزوں کی وصیت کرتے ہیں۔[2] بہرحال جب سعد رضی اللہ عنہ کو مثنی رضی اللہ عنہ کی رائے اور وصیت معلوم ہوئی تو ان کے دل میں مثنی رضی اللہ عنہ کی موت کا غم تازہ ہوگیا، ان پر رحمت الٰہی کی دعائیں کیں اور معنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جگہ امیر مقرر کرتے ہوئے نصیحت کی کہ مثنی کے اہل وعیال کے ساتھ خیر و بھلائی کرنا۔[3] اس اثر میں ایک بات یہ بھی قابل توجہ ہے کہ مثنی نے اپنی بیوی سلمیٰ بنت خصفہ تیمیہ کا وصی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو بنایا اور اسی وجہ سے معنی اپنی بھاوج سلمیٰ کو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے، پھر جب سلمیٰ کی عدت پوری ہوگئی تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ان کو پیغام نکاح دیا اور اپنی زوجیت میں لے لیا۔ اس وصیت کا مقصد کیا تھا؟ کیا مثنی رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو بزبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم جنت کی بشارت پانے والی اور اسلام کی عظیم و بہادر ہستی کے ساتھ لگا کر ان کے ساتھ حسن سلوک اور وفاداری کرنا چاہتے تھے؟ اگر یہی مقصد تھا تو یہ ازدواجی زندگی میں وفاداری کی ایک نادر مثال ہے یا یہ کہ سلمیٰ عقل مند اور فہم وفراست کی مالک تھیں اور اپنے شوہر کے ساتھ رہتے رہتے ان کے جنگی تجربات سے واقف تھیں، تو مثنی رضی اللہ عنہ نے یہ چاہا کہ مسلمان ان تجربات سے فائدہ اٹھائیں؟ دونوں باتوں کا احتمال ہے۔ درحقیقت رشد وہدایت کی دولت سے مالا مال اس نسل انسانی کے فضائل ومناقب اور نادر روزگار کارناموں میں سے یہ چھوٹا سا واقعہ بطور مثال ’’مشتے نمونہ از خروارے‘‘ ہے۔ [4] اس واقعہ میں معنی رضی اللہ عنہ کے اس قابل تعریف مؤقف کی طرف اشارہ کرنا بھی مناسب ہو گا جو انہوں نے وصیت پہنچانے سے پہلے اختیار کیا تھا، وہ یہ تھا کہ آپ کو معلوم ہوا کہ فارسی سرداروں میں سے ایک سردار نے جس کا نام ’’آزاذمر‘‘ تھا، قابوس بن منذر کو یہ کہہ کر قادسیہ بھیجا ہے کہ عربوں کو ایرانیوں کی مدد پر اکساؤ، تمہی ان کے سردار ہوگے اور جس طرح تمہارے آبا واجداد تھے چنانچہ قادسیہ آیا اور کہیں لالچ دلا کر اور کہیں
[1] تاریخ الطبری: ۴/۳۰۸۔ [2] ’’زرود‘‘ عراق کے راستے سے آنے والے حجاج کے راستے میں ثعلبیہ اور خزیمیہ کے درمیان ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/۳۱۰۔ [4] القادسیۃ: أحمد عادل کمال ص ۲۹۔