کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 600
ہجیمی کو اپنا نائب بنا کر خود بھی ان دونوں کے پیچھے نکل پڑے۔ جب فرات اور عتیبہ صفین کے قریب پہنچے تو مثنی رضی اللہ عنہ ان دونوں سے الگ ہوگئے۔ ادھر صفین کے لوگ حملہ کے خوف سے بھاگے اور دریائے فرات کو پار کرتے ہوئے جزیرے میں پناہ لی، فرار ہونے والوں میں نمر اور تغلب کے بھگوڑے شامل تھے۔ فرات اور عتیبہ نے دوڑا دوڑا کر ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ ایک گروہ کو دریا میں چھلانگ لگانے پر مجبور کر دیا۔ دریا میں گرنے والے چیخ چیخ کر آواز لگا رہے تھے، بچاؤ بچاؤ، ہم ڈوب گئے ہم ڈوب گئے اور فرات وعتیبہ انہیں اندر دھکیل رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آگ کے بدلے پانی۔ دراصل وہ دونوں دور جاہلیت کے اس سیاہ دن کی طرف اشارہ کر رہے تھے جس میں ان لوگوں نے بکر بن وائل کے ایک گروہ کو ایک جھاڑی میں گھیر کر انہیں نذر آتش کر دیاتھا۔ اس حملہ میں فرات اور عتیبہ نے ان لوگوں کو دریا برد کرنے کے بعد مثنی رضی اللہ عنہ کے پاس واپسی کا راستہ لیا۔ ادھر مدینہ میں عمر رضی اللہ عنہ کوا س واقعہ کی خبر پہنچ گئی۔ کیونکہ ہر چھوٹے بڑے اسلامی لشکر میں آپ کا کوئی نہ کوئی مخبر ضرور ہوتا تھا، جو حالات کی پوری رپورٹنگ کرتا تھا۔ چنانچہ فرات بن حیان اور عتیبہ دارالخلافہ مدینۃ الرسول میں طلب کیے گئے اور عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے معاملہ کی پوری تحقیق کی۔ ان دونوں نے عذر پیش کرتے ہوئے کہا : امیر المومنین! ہم نے مثل کے طور پر یہ بات کہی تھی کہ آگ کے بدلے پانی۔ زمانہ جاہلیت کا انتقام ہمارا مقصود نہ تھا۔ آپ نے ان دونوں سے قسم لی اور انہوں نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ اس سے ہمارا مقصد صرف ایک مثل کا اعادہ اور اسلام کی سربلندی تھی۔ وہ دونوں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے قافلہ کے حملہ کے ساتھ عراق واپس ہوئے۔[1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی یہ باز پرس بالکل برمحل تھی، کیونکہ آپ رعایا کے اخلاق وعادات کی اصلاح وحفاظت کے سخت حریص تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ فساد و بگاڑ کا شکار ہو جائے۔[2] مثنی رضی اللہ عنہ نے معرکہ بویب میں مسلمانوں کی حاصل کردہ قوت اور شان دار فتح سے فائدہ اٹھانے میں ذرا بھی غفلت نہ کی اور شمالی عراق میں پوری منصوبہ بندی کے ساتھ پے در پے چھاپہ مار حملے شروع کر کے دشمنوں کو دور بھگانے کے جنگی اصول کو عملی جامہ پہنایا۔ اس طرح اللہ کی توفیق سے اور پھر فوجی قیادت میں اپنی جوہری صفات کے باعث پوری طاقت اور عمیق سیاسی بصیرت کے ساتھ شمال میں تقریباً چار سو (۴۰۰) کلو میٹر بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ آگے نکل گئے۔ جب کہ دوسری طرف مشرق، مغرب اور جنوب میں بھی اسی تیز رفتاری کے ساتھ بڑھتے اور پھیلتے چلے گئے۔[3]دراصل مثنی رضی اللہ عنہ نے اپنی ان کارروائیوں میں گوریلا جنگ کی حکمت وپالیسیوں کو نافذ کیا تھا اور اس جنگ کے نتیجہ میں اس وقت مدائن میں برسر اقتدار ایرانی حکومت کو اپنی رعایا کے سامنے زبردست رسوائی کا منہ
[1] الطریق إلی المدائن: ص ۴۵۷۔ [2] حرکۃ الفتح الإسلامی: شکری فیصل ص ۷۸، تاریخ الطبری: ۴/ ۲۹۹۔