کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 60
اس طرح سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے اقوال وافعال سے اپنے دین وعقیدہ کی خدمت میں برابر لگے رہے۔ اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہ کرتے، مسلمانان مکہ میں سے جو وہاں سے ہجرت کرنا چاہتا آپ اس کے لیے مددگار اور سند اجازت ہوتے، یہاں تک کہ آپ خود اور آپ کے ساتھ اقرباء اور حلفاء وہاں سے نکل آئے۔ آپ نے اپنے ان تمام ساتھیوں کی بھرپور مدد کی جو ہجرت کرنا چاہتے تھے، لیکن ان کے بارے میں دشمنوں کی طرف سے ابتلاء وآزمائش کا اندیشہ تھا۔ [1] آپ اس واقعہ کی تفصیل خود اس طرح بتاتے ہیں: جب میں اور عیاش بن ابی ربیعہ اور ہشام بن عاص بن وائل سہمی نے مدینہ ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو میں نے وادی سَرِف [2] کی اونچائی پر اَضاء ۃ بنی غفار 3[3]کے باغ میں ان سے ملنے کا وعدہ کیا۔ ہم نے آپس میں طے کیا کہ جو صبح صبح وہاں نہ پہنچے وہ گویا گرفتار ہو گیا، اس کے دونوں ساتھیوں کو چاہیے کہ آگے بڑھ جائیں۔ آپ کہتے ہیں: میں اور عیاش بن ابی ربیعہ صبح سویرے باغ پہنچ گئے اور ہشام گرفتار کرلیے گئے۔ ان پر ہر آزمائش آئی ، وہ فتنے میں گرفتار ہوگئے۔ [4]جب ہم مدینہ پہنچے تو ’’قباء‘‘ میں بنو عمرو بن عوف کے ہاں ٹھہرے۔ ادھر ابوجہل بن ہشام اور حارث بن ہشام عیاش بن ابی ربیعہ کی تلاش میں نکلے، وہ ان کے چچا زاد نیز ماں شریک بھائی تھے، وہ دونوں مدینہ پہنچے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے۔ ان دونوں نے آپ (عیاش بن ابی ربیعہ) سے بات کی اور کہا: تمہاری ماں نے نذر مان لی ہے کہ جب تک وہ تمہیں دیکھ نہ لیں گی سر میں کنگھی نہیں کریں گی، اور نہ دھوپ سے ہٹیں گی۔ چنانچہ ماں کے لیے آپ کا دل نرم پڑگیا۔ میں نے ان سے کہا: عیاش خبردار! بے شک اللہ کی قسم یہ لوگ تمہیں آزمائش میں ڈال کرتمہارے دین سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں، لہٰذا ان سے ہوشیار ہوجاؤ۔ اللہ کی قسم ! اگر تمہاری ماں کو جوئیں تکلیف دیں گی تو وہ کنگھی کرے گی، اور اگر مکہ کی گرمی اس کو تکلیف دے گی تو سایہ میں جائے گی۔ آپ نے کہا: میں اپنی ماں کی قسم پوری کروں گا اور وہاں میرا کچھ مال بھی ہے اسے بھی لے آؤں گا۔ جناب عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے کہا: اللہ کی قسم ! تم جانتے ہو کہ میں قریش میں سب سے زیادہ مالدارہوں، تم میرا آدھا مال لے لو، لیکن ان دونوں کے ساتھ نہ جاؤ۔ لیکن انہوں نے میری بات نہ مانی اور جانے پر مصر
[1] صحیح التوثیق فی سیرۃ الفاروق، ص:۳۰ یہ خبر قابل اعتبار ہے۔ [2] صحیح التوثیق فی سیرۃ الفاروق، ص:۳۰ یہ خبر قابل اعتبار ہے۔ [3] فتح الباری: ۷/ ۲۶۱۔ بحوالہ صحیح التوثیق، ص:۳۱ [4] صحیح البخاری: ۳۹۲۵