کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 598
اور تقویٰ کی سرگوشی کرو، بدگمانی، گناہ اور سرکشی کی سرگوشی سے باز رہو، معاملات کا گہرائی سے جائزہ لو، پھر اندازہ لگاؤ اور پھر زبان سے کوئی بات کہو۔ تمہاری اس ہوش مندانہ کارروائی کی خبر ابھی ان کی بستیوں تک نہیں پہنچی اور اگر پہنچ بھی جاتی ہے تو ان کے اور تمہاری طلب وتلاش کے درمیان تمہارے رعب و دہشت کی دیوار حائل ہو جائے گی۔ بے شک ان چھاپہ مار حملوں کی دہشت پورا دن رات باقی رہتی ہے اگر پیچھا کرنے والے تمہیں اپنے سامنے دیکھ لیں تو بھی تمہیں نہیں پکڑ سکتے۔ اس لیے کہ تم اصلی اور عمدہ نسل کے گھوڑوں پر سوار ہو اور وہ کمزور و بوڑھے گھوڑوں پر ہوں گے۔ آرام واطمینان سے چلو اور اپنے لشکر وجماعت میں شامل ہو جاؤ اور سنو! اگر وہ تم کو پا لیں تو بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں، ہم ان سے اجر و ثواب اور فتح ونصرت کے لیے قتال کریں گے، لہٰذا ان سب اندیشوں کو بھلا کر اللہ پر بھروسا کرو اور اس کے ساتھ حسن ظن رکھو، بہت سارے مواقع پر اس نے تمہاری مدد فرمائی ہے حالانکہ دشمن تم سے زیادہ اور قوی تھے۔ میں اپنے عزائم اپنی جلد بازی اور پے در پے ان چھاپہ مار حملوں کے مقاصد سے تم لوگوں کو جلدی ہی آگاہ کرتا ہوں۔ خلیفہ رسول ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں نصیحت کی تھی کہ اس طرح کی کارروائیوں کے بعد ہم موقع پر صرف معمولی وقت ٹھہریں، تیزی سے زبردست حملہ کریں اور وہاں سے لوٹنے میں جتنی جلدی ممکن ہو اتنی جلدی کریں۔‘‘[1] یہ ہے مثنی رضی اللہ عنہ کی جنگی و فوجی دانش مندی، آپ ٹھیک اندازے، منظم منصوبہ سازی اور گہرے ایمان ویقین کے ساتھ حرکت میں آتے تھے، ہر ہر معرکہ ان کی جنگی دانش مندی، تجربہ ومہارت اور فنون حرب وسپہ سالاری میں علم و معرفت کے اضافے کا سبب ہوتا تھا۔ مثنی کی یہ کارروائیاں ہمارے لیے واضح کرتی ہیں کہ ان جنگی جواہر کو حاصل کرنے کے لیے جس شخصیت کے سامنے انہوں نے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا وہ اس میدان کا یقینا ایک بے نظیر انسان تھا، وہ کوئی اور نہیں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، جن سے مثنی رضی اللہ عنہ کو استفادہ کرنے کا بہت تھوڑا موقع ملا تھا۔[2] پھر مثنی رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں کو روانہ ہونے، گھوڑوں پر سوار ہونے اور واپس چلنے کا حکم دیا، خود بھی ان کے ساتھ رہے اور اپنے راہنماؤں کو بھی ساتھ میں رکھا، صحراؤں سے گزرتے اور دریاؤں کو عبور کرتے ہوئے انبار پہنچے، انہیں دیکھ کر وہاں کے جاگیرداروں نے آپ کا پرتپاک خیر مقدم کیا اور مثنی رضی اللہ عنہ کی باسلامت واپسی پر مسرت کا اظہار کیا۔ کیونکہ آپ نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگر مجھے اپنی مہم میں حسب منشا کامیابی ملی تو تم لوگوں کو احسان واکرام سے نوازوں گا۔ خوشیوں سے جھومتے ہوئے ایک جاگیردار نے یہ اشعار پڑھنے: وللمثنی بالعال معرکۃ شاہدہا من قبیلۃ بشر
[1] اس شعر کا مقصد یہ ہے کہ انہوں نے اطمینان سے بازار پر حملہ کیا تھا۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/ ۲۹۶۔ [3] احمد کمال کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں اس سے نہر صرصر مراد ہے۔ الطریق الی المدائن: ۲۵۵۔