کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 597
أبحنا دارہم والخیل تردی بکل سمیدع سامی التلیل ’’ہم نے ان کے گھروں پر حملہ کیا، اس حال میں کہ گھوڑے پوری پھرتی کے ساتھ شکار کو تیزی سے جھپٹ لینے والے شکاری کی طرح چھلانگ لگا رہے تھے۔‘‘ نسفنا سوقہم والخیل رود من التطواف والشر والبخیل[1] ’’ہم نے ان کے بازار کا صفایا کر دیا حالانکہ گھوڑے سخت لڑائی اور کود پھاند کرتے سست رو ہو چکے تھے۔‘‘ پھر ’’انبار‘‘ کے جاگیرداروں سے مدد لی اور انہی میں سے کچھ کو راہنمائی کے لیے منتخب کیا اور پھر بغداد کے بازار کوتہ وبالا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی، چنانچہ دریائے دجلہ کو عبور کیا اور دوسرے دن سورج طلوع ہوتے ہی بغداد اور اس کے بازاروں پر حملہ کر کے سیف و سنان کے رعب کو ان کے دلوں میں گاڑ دیا اور کئی لوگ قتل کیے گئے۔ آپ کے ساتھیوں نے حسب منشا مال غنیمت سمیٹا، آپ نے ان کو پہلے ہی حکم دیا تھا کہ مفتوحہ بازاروں سے تم صرف سونا اور چاندی ہی لینا اور دیگر اموال غنیمت صرف اتنا لینا جسے تم اپنی سواری پر لاد سکو۔[2] مثنی رضی اللہ عنہ کے حملے سے بازار کے لوگ بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں نے سونا چاندی اور من پسند اشیاء غنیمت سے اپنے دونوں ہاتھ بھر لیے۔ پھر وہ سب وہاں سے واپس لوٹے یہاں تک کہ جب نہر ’’سبلحین‘‘[3]پہنچے جو بغداد سے تقریباً پینتیس(۳۵) کلو میٹر دورہے تو وہاں ٹھہر گئے اور کہا: اے لوگو! ٹھہرو، اپنی ضروریات پوری کر لو اور چلنے کے لیے تیار ہو جاؤ، اللہ کا شکر ادا کرتے رہو، اس سے عافیت کے طلب گار رہو اور بلاتاخیر اگلے نشانہ کے لیے نکل پڑو۔ چنانچہ آپ کے ساتھیوں نے ایسا ہی کیا اور یکے بعد دیگرے گھوڑوں کی پشت سے بازاروں پر چھاپہ مار حملے کرتے ہوئے تقریباً ساٹھ (۶۰) کلو میٹر طے کیا۔ یہ ساری کارروائیاں ایک ہی مرحلہ میں ہوئیں، یعنی رات کے آخری حصے میں جب بغداد کے بازار پر حملہ کیا اور لوٹتے لوٹتے یہ سب کچھ کر گزرے۔ مثنی نے سوچا کہ ان کے ساتھی اور گھوڑے تھک چکے ہیں اور اب انہیں آرام کی ضرورت ہے لیکن وہ لوگ اپنی اس زبردست کارروائی کے رد عمل میں دشمن کے ممکنہ خطرات کو اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ مثنی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے بیچ سے گزر رہے تھے کہ ان میں سے کسی سے آہستہ آہستہ کہتے ہوئے سنا: ’’شاید دشمن نے ہمارا پیچھا کر لیا۔‘‘ مثنی رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: نیکی
[1] تاریخ الطبری: ۴/ ۲۹۳۔ [2] ترتیب وتہذیب البدایۃ والنہایۃ: خلافۃ عمر، ص۹۳۔