کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 595
ما إن رأینا أمیر بالعراق مضی مثل المثنی الذی من آل شیبانا ’’عراق کی تاریخ میں ہم نے آل شیبان کے مثنی جیسا کوئی امیر نہیں دیکھا۔‘‘ إن المثنی الأمیر القرم لا کذب فی الحرب اشجع من لیث بحفانا[1] ’’یقینا مثنی عظیم لیڈر ہیں، اس میں کوئی شک نہیں، حفان کے معرکہ میں وہ شیر سے بھی زیادہ بہادر نظر آئے۔‘‘ ان اشعار میں شاعر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اور ابوعبید ثقفی رحمہ اللہ پر مثنی رضی اللہ عنہ کو صراحتاً فوقیت دے رہا ہے، اس کا تعلق عبدقیس سے ہے، بنو شیبان اور بکر بن وائل کافرد نہیں ہے کہ کہا جائے وہ اپنی قوم اور قبیلے کے لیے متعصب ہے۔[2]بے شک مثنی بن حارثہ رضی اللہ عنہ فوجی نفسیات کے علم جدید کے کسی موجد سے صدیوں پیشتر اس علم کے ایک ماہر قائد گزر چکے ہیں۔[3] ۴: مجاہدین کی عورتوں کا قابل تحسین موقف: اس معرکہ میں جب مسلمانوں کے امراء وقائدین نے مال غنیمت میں لیے ہوئے غلہ جات کو مجاہدین کی عورتوں کے پاس بھیجا اور انہوں نے قافلہ آتے دیکھ کر جو مؤقف اختیار کیا وہ حد درجہ قابل تحسین ہے۔ اس قافلہ کی قیادت عرب نژاد نصرانی قائد عمرو بن عبدالمسیحبن بقیلہ کر رہا تھا، عورتوں نے جب اس قافلہ کو دیکھا تو سمجھا کہ شاید یہ لوگ ہم پر چھاپہ مار حملہ کرنے والے ہیں، لہٰذا انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو بلایا، بچوں کو پیچھے کیا اور پتھر اور لاٹھیاں لے کر مقابلے کے لیے آگے آگئیں۔ عمرو بن عبدالمسیح نے یہ منظر دیکھ کر کہا: اسلامی لشکر کے مجاہدین کی عورتوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے، انہیں فتح کی خوش خبری دے دو۔[4] خواتین اسلام کا یہ مؤقف ان کی بہترین اسلامی تربیت اور کامل مسلم شخصیت ہونے کی دلیل ہے، وہ خواتین اس بات کی تربیت یافتہ تھیں کہ جب معاشرہ مردوں سے خالی ہو تو حالات سے کس طرح نمٹا جائے۔ بہرحال اس معرکہ کی شان دار فتح نے عراق میں دریائے دجلہ وفرات کے درمیانی علاقہ میں مسلمانوں کی قوت ودبدبہ کو بلند کر دیا اور پھر اس کے بعد مثنی رضی اللہ عنہ نے اپنے امرائے لشکر وقائدین فوج کو دیگر علاقوں میں روانہ کیا اور وہ لوگ اپنے دشمنوں کو زیر کرتے ہوئے ان کے شہروں کو فتح کرتے رہے اور ان علاقوں سے ملنے والے اموال غنیمت پر اپنی زندگی کی گزر بسر کرتے رہے۔[5]
[1] الطریق إلی المدائن: ص ۴۴۷۔ [2] تاریخ الطبری: ۵/۲۸۳۔