کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 591
سینے سے لگا لیا۔ ہر محاذ پر جنگ کا شعلہ بھڑک رہا ہے لیکن ایرانی فوج کا قلب ان کے مفاد سے پیچھے ہٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اسلامی فوج کا قلب ایرانی فوج کے قلب پر ضرب کاری لگا رہا ہے، ایسے وقت میں مثنی رضی اللہ عنہ نے اپنا شکنجہ اس میں ٹھونک دیا۔ ایرانی فوج کے قلب میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہما سب سے پہلے گھس گئے، ان کے ساتھ بجیر بھی تھے۔ ابن الہوبر اور منذر بن حسان نے ضبہ والوں کو لے کر حملہ کیا نیز قرط بن جماع عبدی بہادری کے ساتھ لڑتے رہے یہاں تک کہ آپ کے ہاتھوں سے کئی نیزے اور تلواریں ٹوٹ گئیں اور اس خون ریز معرکہ میں شہر بزار نامی ایک عظیم ایرانی جاگیر دار اور ان کے شہ سواروں کا قائد قتل کر دیا گیا، لڑائی ہوتی رہی اور مسلمانوں نے مشرکین کے قلب کے ایک ایک فرد کو چن چن کر قتل کیا۔[1] جب میدان جنگ دھول اور گردوغبار سے بھر گیا تو مثنی رضی اللہ عنہ ایک لمحہ کے لیے رک گئے یہاں تک کہ گردوغبار کے بادل چھٹ گئے، مشرکین کا قلب ختم ہوگیا اور ان کا قائد مہران بھی تہ تیغ کر دیا گیا۔ قلب کے بعد میمنہ او ر میسرہ کے فوجی دستے تتر بتر ہوگئے۔ جب مسلمانوں نے افراتفری اور بھگدڑ کا یہ ماحول دیکھا اور دیکھا کہ دشمن کا قلب ختم ہو چکا ہے تو ان کے میمنہ ومیسرہ نے ایرانیوں کے میمنہ ومیسرہ پر زبردست حملہ کر دیا، دشمن کو پیچھے دھکیلتے چلے گئے، اور مثنی رضی اللہ عنہ اپنے مجاہدین ساتھیوں کے ساتھ اللہ سے اپنی فتح کے لیے دعائیں کرنے لگے اور تمام مسلمان مجاہدین میں یہ پیغام کہلوایا کہ ’’تمہاری خوبیاں تمہی جیسے لوگوں سے ظاہر ہوں گی۔ تم اللہ کے دین کی مدد کرو، اللہ تمہاری مدد کرے گا، مسلمانوں نے ایرانیوں کو شکست دے دی، مثنی رضی اللہ عنہ نے دشمن کو شکست خوردہ ہو کر بھاگتے ہوئے دیکھا تو بڑھ کر پل پر قبضہ کر لیا پھر اسے توڑ دیا اور دشمنوں کو گرفتار کرنے لگے، ایرانی سپاہی دریائے فرات کے ساحل پر منتشر ہو گئے اور اسلامی لشکر کے گھوڑے انہیں دوڑا دوڑا کر روندتے اور قتل کرتے۔ ان کی اس قدر لاشیں گریں کہ کشتوں کے پشتے لگ گئے۔ بعض مؤرخین نے اس معرکہ میں ایرانی فوج کے مقتولین کی تعداد ایک لاکھ بتائی ہے۔[2] ۱: معرکہ ختم ہونے کے بعد جنگی کانفرنس: جنگ بندی ہوئی، مثنی رضی اللہ عنہ اور اسلامی فوج نے دسیوں ہزار لاشوں پر نگاہ دوڑائی، پورا میدان کارراز خون اور لاشوں سے بھرا ہوا تھا، پھر اپنے لشکر کے ساتھ ایک مجلس کی، ایک دوسرے کے حالات وخیرت سے واقفیت چاہتے، کون کن کن مرحلوں سے گزرا، ان کی تفصیل دریافت کرتے، مجلس میں تشریف لانے والے ہر شخص سے پوچھتے کہ اپنے بارے میں بتاؤ ، کن حالات سے گزرے اور پھر وہ لوگ آپ کے سامنے معرکہ کے دوران پیش آنے والے احوال کی منظر کشی کرتے۔ خود مثنی رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں نے جاہلیت اور اسلام دونوں میں عرب وعجم سے جنگ کی ہے، اللہ کی قسم جاہلیت میں ایک سو عجمی ایک ہزار عربوں پر بھاری ہوتے تھے، لیکن آج ایک سو عرب
[1] تاریخ الطبری: ۴/۲۸۷۔ [2] تاریخ الطبری: ۴/۲۸۸۔ [3] تاریخ الطبری: ۴/۲۸۸۔